لیاقت بلوچ کے بقول، نگراں وزیر اعظم کے لئے چھ ناموں کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ آئینی طور پر نگراں وزیر اعظم کے لئے دو نام ہی بھیجے جا سکتے ہیں
حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان نگراں وزیراعظم کے لئے تجویز کردہ چھ نام سامنے آنے کے بعد ان ناموں میں شامل عاصمہ جہانگیر کے نام پر جماعت اسلامی کا اعتراض سامنے آیا ہے۔
عاصمہ جہانگیر کا نام ایوان صدر سے رائیونڈ تک یکساں طور پر لیا جارہا تھا۔ تاہم، جماعت اسلامی نے اس نام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے اتوار کو جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ مجھے اپوزیشن رہنما چوہدری نثار علی خان نے آج ہی فون کرکے بتایا ہے کہ نگراں وزیر اعظم کے ناموں کے حوالے سے تاحال مشاورتی عمل جاری ہے اور 2سے 3 روز میں عبوری سیٹ اپ کے لئے حتمی نام سامنے آجائے گا۔
لیاقت بلوچ کے بقول، نگراں وزیر اعظم کے لئے چھ ناموں کی تو ضرورت ہی نہیں کیونکہ آئینی طور پر نگراں وزیر اعظم کے لئے دو نام ہی بھیجے جا سکتے ہیں۔
لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر پر اعتراض نیا نہیں۔ کچھ ماہ پہلے نگراں وزیر اعظم کے لئے سات نام پیش کئے گئے تھے جن میں سے قاضی حسین احمد اور محمود خان اچکزئی نے معذرت کرلی تھی، عطاء اللہ مینگل کا نام رد کر دیا گیا تھا، جبکہ جسٹس شاکراللہ جان کی ریٹائرمنٹ کو ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے ۔
عاصمہ جہانگیر کا نام ایوان صدر سے رائیونڈ تک یکساں طور پر لیا جارہا تھا۔ تاہم، جماعت اسلامی نے اس نام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اس حوالے سے اتوار کو جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ مجھے اپوزیشن رہنما چوہدری نثار علی خان نے آج ہی فون کرکے بتایا ہے کہ نگراں وزیر اعظم کے ناموں کے حوالے سے تاحال مشاورتی عمل جاری ہے اور 2سے 3 روز میں عبوری سیٹ اپ کے لئے حتمی نام سامنے آجائے گا۔
لیاقت بلوچ کے بقول، نگراں وزیر اعظم کے لئے چھ ناموں کی تو ضرورت ہی نہیں کیونکہ آئینی طور پر نگراں وزیر اعظم کے لئے دو نام ہی بھیجے جا سکتے ہیں۔
لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر پر اعتراض نیا نہیں۔ کچھ ماہ پہلے نگراں وزیر اعظم کے لئے سات نام پیش کئے گئے تھے جن میں سے قاضی حسین احمد اور محمود خان اچکزئی نے معذرت کرلی تھی، عطاء اللہ مینگل کا نام رد کر دیا گیا تھا، جبکہ جسٹس شاکراللہ جان کی ریٹائرمنٹ کو ابھی دو سال مکمل نہیں ہوئے ۔