پاکستان کے سیاسی بحران پر امریکی اخبارات میں برابر طرح طرح کے تجزئے چھپ رہے ہیں۔
’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتاہے کہ کیا پاکستان کی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے، کیونکہ ایسے میں جب سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف گرفتاری کے احکامات جاری کئے ہیں، ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں سرگرمی کے ساتھ بحث جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ فوجی بغاوتوں کی وجہ سے پاکستان کے جمہوری ارتقا میں بار بار خلل آیا ہے اور کسی بھی منتخب حکومت کو اب تک اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت چند ماہ میں یہ امتیاز حاصل کرنے والی ہے۔لیکن عدلیہ کے اس اقدام نے اسےمشکوک بنا دیا ہے۔حکومت جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے لئے اپنی میعاد پوری کرنے کے عمل کو کلیدی اہمیت دیتی ہے۔ عدالت کے اس قدم کی مخالفت کرنے والوں کو اس سے اتفاق ہےاور وہ اس کو ایک ایسی موقع پرستانہ حرکت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو عین انتخابات سے پہلے اور ایک احتجاجی تحریک کے دوران ہوئی ہے جس کا مقصد حکومت کو گرانا ہے۔
لیکن، عدالت کے حامیوں کا یہ موقّف ہے کہ جمہوریت کا ایک اور ستون خطرے میں ہے۔ یعنی آئین اور قانون کی بالادستی۔ وُہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حکّام پر بھی لازم ہے کہ وُہ قواعد و ضوابط پر کاربند رہیں اور عدالت نے جب کرپشن کے الزامات کی بنا پر وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دیا ، تو اُس نے یہ سب کُچھ اپنے دائرہٴ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کیا۔
لیکن، بعض تجزیہ کاروں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے کہ ماضی میں ملک کے اداروں کی زمامِ اختیار جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی وُہ بھی اصولوں سے انحراف کرکے اپنے جمہوری عقائد کو بٹّہ لگا چُکے ہیں ۔ اور ماضی میں یہ عدالت اُن جرنیلوں کاساتھ دیتی آئی ہے جنہوں نے اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا۔ اسی طرح موجودہ منتخب حکومت کو جب جائز چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے توہ انہیں فوجی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دے کر درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔
اخبار نےمعروف کالم نگار زرّار کھورو کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جمہوریت حکومت کے ہاتھ میں قربانی کا بکرا بن گئی ہےاور جب بھی حکومت سے جائز سوال کئے جاتے ہیں تو اُس کا جوب ہوتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔وُہ کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر حکومت کو اپنی اُس بد انتظامی اور کرپشن پرتھوڑی سی خُود احتسابی کرنی چاہئے جس کی وجہ سے اُسے احتجاجی مظاہروں اور عدلیہ کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اخبار’ہُیوسٹن کرانیکل‘ میں بھی پاکستان میں عوامی مظاہروں پر ایک تفصیلی رپورٹ چھپی ہے ، جس میں خیبر پختوں خواہ کے گورنر کی کوٹھی کے باہر تین ہزار قبائیلیوں کے احتجاجی دھرنے کا ذکر ہے۔یہ لوگ اپنے 18 عزیزوں کی لاشیں بھی اپنے ساتھ لائے تھے جنہیں خیبر ایجنسی کے علاقے میں ہلاک کیا گیاتھا۔ یہ اس قبائیلی علاقے کا ایک حصہ ہے جہاں پاکستان کی فوج اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔
اخبار نے حقوق انسانی کی تنظیموں اور مقامی لوگوں کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس کاروائی کے دوران اکثر زیادتیاں بھی ہوتی ہیں اور شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں، اور گورنر ہاؤس کےباہر مظاہرین نے شکائت کی کہ فوجی وردی میں ملبوس حملہ آوروں نےاُن کے گھروں پر دھاوا بول کراِن دیہاتیوں کو ہلاک کیا تھا ۔ اخبار کہتا ہے کہ ماضی میں ایسے حملے ہوئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی رپورٹ کےمطابق پشاور میں ان احتجاجی مظاہرین نے فوج کے خلاف نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ باڑے کے علاقے میں فوجی کاروائی بند کی جائے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص نے ایک کتبہ اُٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ہم بھی پاکستانی ہیں ، ہمیں مت مارو-
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ایک رپورٹ میں پاکستانی فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے کہ وہ لوگوں کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھتی ہےاور اُنہیں اذیّت کا نشانہ بناتی ہے جس کی تاب نہ لاکربعض افراد مر جاتے ہیں اور اُن کی لاشیں یا تو ورثاٴ کے حوالے کر دی جاتی ہیں، یا ویسے ہی پھینک دی جاتی ہیں۔ لیکن، پاکستانی فوج نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے جُھو ٹ کا پُلندہ قرار دیا ہے۔
’کرسچن سائنس مانٹر‘ کہتاہے کہ کیا پاکستان کی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے، کیونکہ ایسے میں جب سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک کیس میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف گرفتاری کے احکامات جاری کئے ہیں، ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں سرگرمی کے ساتھ بحث جاری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ فوجی بغاوتوں کی وجہ سے پاکستان کے جمہوری ارتقا میں بار بار خلل آیا ہے اور کسی بھی منتخب حکومت کو اب تک اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ہے۔ موجودہ حکومت چند ماہ میں یہ امتیاز حاصل کرنے والی ہے۔لیکن عدلیہ کے اس اقدام نے اسےمشکوک بنا دیا ہے۔حکومت جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے لئے اپنی میعاد پوری کرنے کے عمل کو کلیدی اہمیت دیتی ہے۔ عدالت کے اس قدم کی مخالفت کرنے والوں کو اس سے اتفاق ہےاور وہ اس کو ایک ایسی موقع پرستانہ حرکت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو عین انتخابات سے پہلے اور ایک احتجاجی تحریک کے دوران ہوئی ہے جس کا مقصد حکومت کو گرانا ہے۔
لیکن، عدالت کے حامیوں کا یہ موقّف ہے کہ جمہوریت کا ایک اور ستون خطرے میں ہے۔ یعنی آئین اور قانون کی بالادستی۔ وُہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حکّام پر بھی لازم ہے کہ وُہ قواعد و ضوابط پر کاربند رہیں اور عدالت نے جب کرپشن کے الزامات کی بنا پر وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم دیا ، تو اُس نے یہ سب کُچھ اپنے دائرہٴ اختیار کے اندر رہتے ہوئے کیا۔
لیکن، بعض تجزیہ کاروں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے کہ ماضی میں ملک کے اداروں کی زمامِ اختیار جن لوگوں کے ہاتھوں میں تھی وُہ بھی اصولوں سے انحراف کرکے اپنے جمہوری عقائد کو بٹّہ لگا چُکے ہیں ۔ اور ماضی میں یہ عدالت اُن جرنیلوں کاساتھ دیتی آئی ہے جنہوں نے اقتدار پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا۔ اسی طرح موجودہ منتخب حکومت کو جب جائز چیلنجوں کا سامنا ہوتا ہے توہ انہیں فوجی انقلاب کا پیش خیمہ قرار دے کر درخور اعتنا نہیں سمجھتی۔
اخبار نےمعروف کالم نگار زرّار کھورو کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ جمہوریت حکومت کے ہاتھ میں قربانی کا بکرا بن گئی ہےاور جب بھی حکومت سے جائز سوال کئے جاتے ہیں تو اُس کا جوب ہوتا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہے۔وُہ کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر حکومت کو اپنی اُس بد انتظامی اور کرپشن پرتھوڑی سی خُود احتسابی کرنی چاہئے جس کی وجہ سے اُسے احتجاجی مظاہروں اور عدلیہ کے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اخبار’ہُیوسٹن کرانیکل‘ میں بھی پاکستان میں عوامی مظاہروں پر ایک تفصیلی رپورٹ چھپی ہے ، جس میں خیبر پختوں خواہ کے گورنر کی کوٹھی کے باہر تین ہزار قبائیلیوں کے احتجاجی دھرنے کا ذکر ہے۔یہ لوگ اپنے 18 عزیزوں کی لاشیں بھی اپنے ساتھ لائے تھے جنہیں خیبر ایجنسی کے علاقے میں ہلاک کیا گیاتھا۔ یہ اس قبائیلی علاقے کا ایک حصہ ہے جہاں پاکستان کی فوج اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف بر سر پیکار ہے۔
اخبار نے حقوق انسانی کی تنظیموں اور مقامی لوگوں کے حوالے سے بتا یا ہے کہ اس کاروائی کے دوران اکثر زیادتیاں بھی ہوتی ہیں اور شہری بھی ہلاک ہوتے ہیں، اور گورنر ہاؤس کےباہر مظاہرین نے شکائت کی کہ فوجی وردی میں ملبوس حملہ آوروں نےاُن کے گھروں پر دھاوا بول کراِن دیہاتیوں کو ہلاک کیا تھا ۔ اخبار کہتا ہے کہ ماضی میں ایسے حملے ہوئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں نے فوجی وردی پہن رکھی تھی۔
’ہیوسٹن کرانیکل‘ کی رپورٹ کےمطابق پشاور میں ان احتجاجی مظاہرین نے فوج کے خلاف نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ باڑے کے علاقے میں فوجی کاروائی بند کی جائے۔مظاہرے میں شریک ایک شخص نے ایک کتبہ اُٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ہم بھی پاکستانی ہیں ، ہمیں مت مارو-
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے ایک رپورٹ میں پاکستانی فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ اُس نے کہ وہ لوگوں کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھتی ہےاور اُنہیں اذیّت کا نشانہ بناتی ہے جس کی تاب نہ لاکربعض افراد مر جاتے ہیں اور اُن کی لاشیں یا تو ورثاٴ کے حوالے کر دی جاتی ہیں، یا ویسے ہی پھینک دی جاتی ہیں۔ لیکن، پاکستانی فوج نے اس کی تردید کرتے ہوئے اسے جُھو ٹ کا پُلندہ قرار دیا ہے۔