اسلام آباد —
چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ خود مختار اور آزاد ہے اور شفاف و آزدانہ انتخابات کے لیے کمیشن کی جانب سے مزید اختیارات حاصل کرنے کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے کہا ’’آئین نے ہمیں اختیارات دیے ہیں کہ ہم شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ ہم اس سلسلے میں اس لیے احکامات جاری کرتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اختیارات ہیں۔‘‘
حال ہی میں پاکستانی میڈیا میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے خبریں سامنے آئی تھیں کہ ادارے کی جانب سے بھارتی الیکشن کمیشن جیسے اختیارات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سابق جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کی پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے ملک میں قبل از انتخابات دھاندلی پر قابو پایا جاسکے گا۔
’’جب آپ بڑی تعداد میں بھرتیاں کرو گے تو شکوک تو پیدا ہونگے۔۔۔ چیزیں درست طریقے سے ہونی چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے فیصلے کو واپس کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے کوئی دلیل اور وجہ بھی مہیا کی جائے۔
حکومت الیکشن کمیشن سے سرکاری نوکریوں اور ترقیاتی فنڈز کے اجراء پر پابندیوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ حکومت کے بقول یہ پابندیاں کار سرکار میں خلل کا باعث بن رہی ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن ایسے اقدامات اٹھائے گا جس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتی مشینری مئی میں متوقع انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے کمیشن منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد وفاق اور صوبائی سطح پر عبوری حکومتوں کے لیے مشترکہ امیدواروں کے نام تجویز کرے گی۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام (ف) اور سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے درمیان رابطے جاری ہیں۔
لاہور میں ہفتے کو مسلم لیگ (ن) کے ایک اجلاس کے بعد پارلیمان میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے صحافیوں کو اپوزیشن کے اس غیر رسمی اتحاد کے صوبہ سندھ اور بلوچستان سے متعلق حکمت عملی کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ آئین کی 20 ویں ترمیم کے تحت موجودہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد کو تسلیم کرتے ہوئےعبوری حکومتوں کے لیے نامزد امیداوروں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے۔
’’ہم سندھ اور بلوچستان میں چار چار اراکین سے حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔۔۔ زرداری صاحب اپنی منشاء اور سوچ کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں اپمنی مرضی کی حکومتیں نہیں لا سکے گے۔‘‘
مبصرین کے مطابق بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں میں غیر موثر اور غیر منظم حزب اختلاف ہونے کی وجہ سے وہاں حکمران اتحاد کو اپنی مرضی کی عبوری حکومت کے قیام میں کوئی خاطر خواہ دشواری نہ ہوگی۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں انھوں نے کہا ’’آئین نے ہمیں اختیارات دیے ہیں کہ ہم شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ ہم اس سلسلے میں اس لیے احکامات جاری کرتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس اختیارات ہیں۔‘‘
حال ہی میں پاکستانی میڈیا میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے خبریں سامنے آئی تھیں کہ ادارے کی جانب سے بھارتی الیکشن کمیشن جیسے اختیارات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سابق جسٹس فخرالدین جی ابراہیم نے الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری محکموں میں نئی بھرتیوں اور ترقیاتی فنڈز کی پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان سے ملک میں قبل از انتخابات دھاندلی پر قابو پایا جاسکے گا۔
’’جب آپ بڑی تعداد میں بھرتیاں کرو گے تو شکوک تو پیدا ہونگے۔۔۔ چیزیں درست طریقے سے ہونی چاہیے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پابندیوں کے فیصلے کو واپس کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے کوئی دلیل اور وجہ بھی مہیا کی جائے۔
حکومت الیکشن کمیشن سے سرکاری نوکریوں اور ترقیاتی فنڈز کے اجراء پر پابندیوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ حکومت کے بقول یہ پابندیاں کار سرکار میں خلل کا باعث بن رہی ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ عبوری وزیر اعظم کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن ایسے اقدامات اٹھائے گا جس سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتی مشینری مئی میں متوقع انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے کمیشن منصوبہ بندی بھی کررہا ہے۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ وہ حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد وفاق اور صوبائی سطح پر عبوری حکومتوں کے لیے مشترکہ امیدواروں کے نام تجویز کرے گی۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن)، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام (ف) اور سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے درمیان رابطے جاری ہیں۔
لاہور میں ہفتے کو مسلم لیگ (ن) کے ایک اجلاس کے بعد پارلیمان میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے صحافیوں کو اپوزیشن کے اس غیر رسمی اتحاد کے صوبہ سندھ اور بلوچستان سے متعلق حکمت عملی کے حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ آئین کی 20 ویں ترمیم کے تحت موجودہ حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد کو تسلیم کرتے ہوئےعبوری حکومتوں کے لیے نامزد امیداوروں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے۔
’’ہم سندھ اور بلوچستان میں چار چار اراکین سے حزب اختلاف کا کردار ادا کریں گے۔۔۔ زرداری صاحب اپنی منشاء اور سوچ کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں اپمنی مرضی کی حکومتیں نہیں لا سکے گے۔‘‘
مبصرین کے مطابق بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں میں غیر موثر اور غیر منظم حزب اختلاف ہونے کی وجہ سے وہاں حکمران اتحاد کو اپنی مرضی کی عبوری حکومت کے قیام میں کوئی خاطر خواہ دشواری نہ ہوگی۔