الزام اور بہتان تراشی کا باب اب بند ہو جانا چاہیے: نواز شریف

فائل فوٹو

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ وہ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ جو بھی فیصلہ آئے گا اُسے قبول کیا جائے گا۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ انتخابات مجموعی اعتبار سے منصفانہ اور قانون کے تقاضوں کے مطابق منعقد کیے گئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اب نا صرف ماضی کی کوتاہیوں کی تلافی کرنی ہے بلکہ بے یقینی اور عدمِ استحکام پیدا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی بھی کرنی ہے۔

’’ہمارے پاس کھوکھلے نعروں، بے بنیاد دعوؤں، جذباتی اپیلوں اور بے مقصد تماشوں کے لیے کوئی وقت نہیں۔ اب ہمیں قومی زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھنا ہو گا۔ اب ہمیں راستے سے بھٹکا دینے والی آوازوں پر کان دھرنے کی بجائے، اپنی نظریں مستقبل کی روشن منزلوں پر مرکوز رکھنا ہوں گی۔‘‘

قوم سے خطاب میں وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ نا تو انکوائری کمیشن کی کارروائی میں شامل جماعتوں نے کسی ایسی سازش کے بارے میں ثبوت دیے اور نہ ہی کمیشن کے سامنے رکھے گئے مواد سے ایسی کوئی بات سامنے آئی ہے، جس سے دھاندلی کی کسی سازش کی نشاندہی ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ مبینہ دھاندلی میں ملوث افراد کے خلاف عائد کردہ الزامات بھی ثابت نہیں کیے جا سکے۔

اُنھوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی کوتاہیوں کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابی نتائج حقیقی عوامی مینڈیٹ کا اظہار نہیں تھے۔

’’پاکستان ہی نہیں، دنیا کی تاریخ میں بھی ایسی مثال کم ہی ملے گی کہ زبردست عوامی حمایت کے ساتھ منتخب ہونے والی کسی حکومت نے اپنے آپ کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہو۔ ہم نے یہ تحریری ضمانت بھی دے دی تھی کہ دھاندلی ثابت ہونے کی صورت میں ہم حکومت سے الگ ہو کر پھر سے عوام کے پاس جائیں گے۔ ہمارا یہ عہد اس یقین و اعتماد کا اظہار تھا کہ 2013ء کے انتخابی نتائج عوامی مینڈیٹ کے عین مطابق تھے اور اُن میں کسی سطح پر کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ اللہ نے ہمیں سرخرو کیا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ تقریباً تین ماہ کی کارروائی کے بعد انکوائری کمیشن کی جامع رپورٹ نا صرف حکومت کے موقف بلکہ پاکستانی عوام کے مینڈیٹ کی توثیق بھی ہے۔

’’یہ جمہوریت، آئینی نظام اور اداروں کی بلوغت کی علامت ہے۔ یہ اس نظریے کی توثیق ہے کہ مسائل سڑکوں پر نہیں، دھرنوں میں نہیں، دستوری ایوانوں میں حل ہوں گے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ انتخابی عمل کو ہر اعتبار سے آزادانہ، منصفانہ اور خرابیوں سے پاک بنانا مسلم لیگ (ن) کے منشور کا اہم نکتہ ہے اور اس کے لیے ایک کمیٹی بھی قائم ہو چکی ہے۔

’’میں توقع کرتا ہوں کہ تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات کمیٹی میں بیٹھ کر اپنا بھرپور کردار ادا کریں گی اور یہ کام جلد مکمل کر لیا جائے گا۔‘‘

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران نے اپنے ابتدائی ردعمل میں کہا کہ وہ پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ جو بھی فیصلہ آئے گا اُسے قبول کیا جائے گا۔

’’میں نے تو ابھی (رپورٹ) دیکھی نہیں ہے۔ اصولاً تو یہ ہونا چاہیئے کہ اگر دو پارٹیوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان یہ ہوا تو رپورٹ ایک (دونوں فریقوں) کو دینی چاہیئے تھی۔ جہاں تک رپورٹ قبول کرنے کا تعلق ہے کہ وہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ جو بھی نتیجہ آئے گا ہم اُسے قبول کریں گے۔‘‘

پاکستان میں مئی 2013ء میں ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق عدالتی کمیشن کی رپورٹ پر جمعرات کو وزیراعظم ہاؤس میں غور کیا گیا۔

بعد ازاں رپورٹ وزارت قانون و انصاف کی ویب سائٹ پر شائع کر دی گئی۔

فائل فوٹو

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی عدالتی کمیشن نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنی کارروائی مکمل کر لی تھی۔ بعد ازاں وزارت قانون کے ذریعے یہ رپورٹ بدھ کی شب وزیراعظم کو بھجوائی گئی۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم تین رکنی عدالتی کمیشن نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنی کارروائی مکمل کر لی تھی۔ کمیشن میں شامل دیگر دو جج صاحبان میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان شامل تھے۔

عدالتی کمیشن کے 39 اجلاس ہوئے اور اس دوران حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سمیت لگ بھگ 21 سیاسی جماعتوں نے اپنا موقف پیش کیا۔

کمیشن کی کارروائی کے دوران بیشتر وقت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان موجود رہے اور لگ بھگ 70 گواہان پیش ہوئے۔

کمیشن کے قیام سے قبل تحریک انصاف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کے جج خلیل الرحمٰن رمدے پر بھی الزام عائد کرتی رہی کہ وہ انتخابات میں منظم دھاندلی میں شامل تھے۔

لیکن کمیشن کے سامنے اس حوالے سے تحریک انصاف نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیے اور نا ہی اُنھیں بطور گواہان بلانے پر اصرار کیا۔

اس کے علاوہ انتخابات کے وقت پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر بھی تحریک انصاف مبینہ دھاندلی میں کردار ادا کرنے کا الزام لگاتی رہی لیکن جب وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تو اُن سے الزامات کے بارے میں جرح نہیں کی گئی۔

فائل فوٹو

صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف گزشتہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے، حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلی تھی اور اس نے گزشتہ سال اگست میں پارلیمان کے سامنے دھرنا دیا جو تقریباً چار ماہ تک جاری رہا۔

اس دوران اسمبلیوں کی تحلیل کے مطالبات کیے جاتے رہے اور احتجاج کے دوران ہی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی نے استعفے بھی دیے لیکن بعد میں وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں آ گئے۔

دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جس میں عمران خان بھی شریک ہوئے اور بعد ازاں اُنھوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، جس کے سامنے انتخابات میں حصہ لینے والی تقریباً تمام ہی جماعتوں نے اپنا موقف پیش کیا۔

دونوں جماعتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اگر عدالتی کمیشن میں یہ ثابت ہو گیا کہ منظم دھاندلی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی تو وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے لیکن اگر ایسا نا ہوا تو عمران خان کی جماعت انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمنٹ کی کمیٹی کا حصہ بن کر اپنا کردار ادا کرے گی۔

وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی جماعت کی طرف سے انتخابات میں منظم دھاندلی کے الزامات کی مسلسل تردید کی جاتی رہی ہے۔