متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبوں کے قیام کیلئے ترمیمی بل قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ میں جمع کروانے کے بعد سے ہی ملک میں اس موضوع پر گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی اس پر اظہار رائے کرنا پڑا ۔ اگر چہ ایم کیو ایم کے اس عمل سے نئے صوبوں کے حامیوں کے جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے لیکن مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔یہ صورتحال پیپلزپارٹی کیلئے ایک نئے امتحان کوجنم دے رہی ہے ۔
صوبہ جنوبی پنجاب کی قرار دادپر اے این پی کی مخالفت
نئے صوبوں کے قیام کی قرارداد کے بعد پہلی مرتبہ ایم کیو ایم اور اے این پی قومی اسمبلی کے اجلاس میں آمنے سامنے آگئے ۔ ایم کیو ایم کے راہنما حیدر عباس رضوی نے اسمبلی میں کہا کہ نئے صوبوں کے قیام کیلئے قرارداد کو ایوان میں زیر بحث لایا جائے جس پر اے این پی کے رہنما غلام بلور آگ بگولا ہو گئے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں سے متعلق قرارداد کا حق صرف صوبائی اسمبلی کے پاس ہے ، اس معاملے کو کسی صورت قومی اسمبلی میں نہیں لایا جا سکتا ۔ اس موقع پر دونوں راہنماؤں کے دوران انتہائی تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا ۔
ادھر پشاور میں صوبائی وزیر اطلاعات خیبر پختونخواہ میاں افتخار حسین نے ایم کیو ایم کی قرارداد کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا ۔ ان کے مطابق صوبے کے قیام کیلئے قرار داد کوصوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور ہونے کے بعد ہی قومی اسمبلی میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔
اس حوالے سے و ی او اے سے علالت کے باعث مختصر بات چیت میں تحریک صوبہ ہزارہ کے راہنما بابا حیدر زمان نے قرارداد پیش کرنے پر الطاف حسین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ” اب اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ صوبہ ہزارہ کے قیام سے ہی یہاں کے عوام کے مسائل ممکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ وال ہر جگہ متحد رہیں ، کامیابی جلد ممکن ہے ۔ “
سرائیکی صوبے کی قرارداد پر مسلم لیگ ن کی مخالفت
اگر چہ مسلم لیگ ن نے سرائیکی اور ہزارہ صوبوں کے قیام پر تاحال کوئی واضح موقف نہیں اپنایا لیکن لیگی راہنماؤں کے مبہم بیانات پر ماہرین کی رائے ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ جنوبی پنجاب اور ہزارہ صوبہ بننے کا سہرا ایم کیو ایم کے سر سجے ۔ ن لیگ کے راہنما رانا ثناء اللہ ، احسن اقبال اور دیگر مختلف مواقعوں پر میڈیا سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ” ایم کیو ایم نے نئے صوبوں کے قیام کی بنیاد رکھ دی ہے اور بہت جلد یہ گونج سندھ میں بھی سنائی دے گی ۔“
مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد نواز شریف بھی کراچی میں میڈیا سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ نئے صوبے لسانی نہیں انتظامی بنیادوں پر بننا چاہئیں ۔
نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ اپریل 2010ء میں شروع ہوا
ملک میں نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے نے اپریل 2010ء سے اس وقت زور پکڑا جب اٹھارویں ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام تبدیل کر کے صوبہ خیبر پختونخواہ رکھ دیا گیا ۔ اس عمل پر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کی عوام نے سخت تحفظات کا اظہارکیا اور الگ صوبے کے قیام کا مطالبہ کر دیا ۔ ہزارہ کے صدر مقام ایبٹ آباد میں پرتشدد مظاہروں میں 12 افراد لقمہ اجل بن گئے جس کے بعد جنوبی پنجاب سے بھی نئی صوبوں کے مطالبے نے زور پکڑ لیا ۔
مبصرین کے نزدیک قومی اسمبلی میں نئے صوبوں کی قرارداد نے حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کو بھی امتحان میں ڈال دیا ہے ۔ خاص طور پر صوبہ ہزار ہ کو قرارداد میں شامل کر کے ایم کیو ایم نے اے این پی کو کھلا چیلنج دیا ہے ۔ دونوں جماعتیں اس وقت حکمراں اتحاد میں شامل ہیں اور پیپلزپارٹی سینیٹ انتخابات سے قبل کسی صورت اتحادیوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی۔