مبصرین کا کہنا ہے کہ حزب مخالف کے اعتراضات کے بعد صدارتی انتخابات کی قانونی و آئنی ساکھ تو برقرار رہے گی لیکن اس کی سیاسی حیثیت متنازع ہوجائے گی۔
اسلام آباد —
پاکستان میں 30 جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی تیاریاں تقریباً مکمل کر لی گئی ہیں اور الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیرز دیگر انتخابی مواد کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کو بھیج دیا ہے۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو بھی یہ سامان جلد مہیا کر دیا جائے گا۔
بیلٹ پیپرز پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد کے نام درج ہیں۔
قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی تاریخ کوتبدیل کرنے کے عدالتی فیصلے کے بعد صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے جس پر اسے مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کی حمایت بھی حاصل ہے۔
حزب مخالف کے اعتراضات پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کا کہنا ہے۔ ’’جب ان کو معلوم ہوا کہ راجہ ظفر الحق صاحب نے درخواست دائر کی ہے تو انھیں فوراً اس پر فریق بننا چاہیے تھا، اگر یہ نکتہ نظر پیش کرتے سپریم کورٹ کے پاس تو پھر یہ اعتراض کرسکتے تھے۔‘‘
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے اختلاف کو مبصرین سیاسی ماحول کے لیے کوئی اچھا شگون قرار نہیں دیتے۔
تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اختلافات کو دور کیے بغیر آگے بڑھنے سے سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔
’’سیاسی نظام میں کشیدگی اور ٹکراؤ کے بڑھنے کا بڑا امکان ہے مثلاً پی پی پی والے ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے اسمبلیوں میں، آپ دیکھیں گے کہ جب صدر اسمبلی سے خطاب کریں گے تو یہ لوگ واک آؤٹ کریں گے، تو اس طرح تلخی کی ایک بنیاد رکھ دی گئی ہے۔‘‘
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی حزب مخالف کے موقف کی تائید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر صدارتی انتخابات کو متنازع بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس اختلاف کے باوجود ان کی جماعت صدارتی انتخاب میں ضرور حصہ لے گی۔
’’میں احتجاج کے طور پر اس انتخاب میں شرکت کررہا ہوں کیونکہ یہ بالکل غلط ہے۔ حزب مخالف کا موقف ٹھیک ہے۔ الیکشن کمیشن کو نہیں پتا تھا کہ انتخاب کی تاریخ کو ستائسویں رمضان ہے وہ پہلے ایڈجسٹ نہیں کرسکتے تھے پہلے موقع نہیں دے سکتے تھے کہ الیکشن پہلے کروا دیتے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں صدارتی انتخابات کی قانونی و آئنی ساکھ تو برقرار رہے گی لیکن اس کی سیاسی حیثیت متنازع ہوجائے گی۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیوں کو بھی یہ سامان جلد مہیا کر دیا جائے گا۔
بیلٹ پیپرز پر مسلم لیگ ن کے امیدوار ممنون حسین اور تحریک انصاف کے وجیہہ الدین احمد کے نام درج ہیں۔
قومی اسمبلی میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی تاریخ کوتبدیل کرنے کے عدالتی فیصلے کے بعد صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کر چکی ہے جس پر اسے مسلم لیگ ق، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کی حمایت بھی حاصل ہے۔
حزب مخالف کے اعتراضات پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کا کہنا ہے۔ ’’جب ان کو معلوم ہوا کہ راجہ ظفر الحق صاحب نے درخواست دائر کی ہے تو انھیں فوراً اس پر فریق بننا چاہیے تھا، اگر یہ نکتہ نظر پیش کرتے سپریم کورٹ کے پاس تو پھر یہ اعتراض کرسکتے تھے۔‘‘
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری انداز میں انتقال اقتدار کے بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں کے درمیان ایسے اختلاف کو مبصرین سیاسی ماحول کے لیے کوئی اچھا شگون قرار نہیں دیتے۔
تجزیہ نگار پروفیسر حسن عسکری رضوی نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اختلافات کو دور کیے بغیر آگے بڑھنے سے سیاسی کشیدگی مزید بڑھے گی۔
’’سیاسی نظام میں کشیدگی اور ٹکراؤ کے بڑھنے کا بڑا امکان ہے مثلاً پی پی پی والے ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے اسمبلیوں میں، آپ دیکھیں گے کہ جب صدر اسمبلی سے خطاب کریں گے تو یہ لوگ واک آؤٹ کریں گے، تو اس طرح تلخی کی ایک بنیاد رکھ دی گئی ہے۔‘‘
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی حزب مخالف کے موقف کی تائید کرتے ہوئے الیکشن کمیشن پر صدارتی انتخابات کو متنازع بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس اختلاف کے باوجود ان کی جماعت صدارتی انتخاب میں ضرور حصہ لے گی۔
’’میں احتجاج کے طور پر اس انتخاب میں شرکت کررہا ہوں کیونکہ یہ بالکل غلط ہے۔ حزب مخالف کا موقف ٹھیک ہے۔ الیکشن کمیشن کو نہیں پتا تھا کہ انتخاب کی تاریخ کو ستائسویں رمضان ہے وہ پہلے ایڈجسٹ نہیں کرسکتے تھے پہلے موقع نہیں دے سکتے تھے کہ الیکشن پہلے کروا دیتے۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں صدارتی انتخابات کی قانونی و آئنی ساکھ تو برقرار رہے گی لیکن اس کی سیاسی حیثیت متنازع ہوجائے گی۔