پاکستان کے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آٹے کی قیمتوں میں کم از کم دس روپے فی کلو اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد پنجاب میں آٹے کی 20 کلو بوری کی قیمت 1100 سے بڑھ کر اوسطاً 1300 روپے سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ خیبرپختونخوا میں20 کلو آٹے کی قیمت حالیہ اضافے کے بعد 1400 روپے ہو گئی ہے۔ سندھ اور بلوچستان صوبوں میں اب تک قیمتوں میں کسی حد تک استحکام ہے۔
البتہ حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی اسٹورز پر دس کلو آٹے کا تھیلا 400 روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
چند ہفتوں میں ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے پر غذائی ماہرین خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک میں آنے والے دنوں میں گندم کا بحران پیدا ہو سکتا ہے، جس کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔
موجودہ صورتِ حال کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے زرعی ممالک میں سے ایک ، جو اپنی مجموعی آمدنی یعنی جی ڈی پی کا تقریباً 24 فی صد زراعت سے حاصل کرتا ہے اور گندم پیدا کرنے والے دنیا کے دس بڑے ممالک میں شامل ہے، وہ ملک گندم کے بحران کی جانب کیوں بڑھ رہا ہے؟
'موسمیاتی تبدیلی، اسمگلنگ اور کھاد کا بحران اہم وجہ ہے'
ماہر اجناس شمس الاسلام کہتے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال کی کئی وجوہات ہیں جن میں سرِفہرست رواں برس ہدف سے کم گندم پیدا ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں گندم کی سالانہ کھپت 28 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد ہے لیکن اس بار اب تک کے اندازوں کے مطابق تقریباً 26 لاکھ میٹرک ٹن پیداوار متوقع ہے۔
ماہرین کے مطابق اس کمی کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بروقت بارشیں نہ ہونا بتایا جاتاہے۔ جب کہ گندم کی بوائی کے وقت ملک میں جاری کھاد کا بحران بھی اس کی ایک وجہ قرار دی جارہی ہے۔
شمس الاسلام نے مزید بتایا کہ ملک میں پیدا ہونے والی گندم سرحدی راستوں سے افغانستان اور ایران بھی اسمگل ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں آنے والے دنوں میں بحران بڑھنے کے خدشات ہیں۔
البتہ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے رہنما عاصم رضا کا کہنا ہے کہ گندم کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی اصل وجہ گندم کی سپورٹ پرائس یعنی امدادی قیمت میں اضافہ ہے جو پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے اس سال 2200 روپے فی من مقرر کی تھی اور اس کی مناسبت سے ہی آٹے کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں گندم کی بلند قیمتیں
البتہ عاصم رضا کے مطابق ملک میں اس سال گندم کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ان کے خیال میں گندم ہدف کے قریب تر ہے اور اگرگزشتہ سال کی گندم کے بچ جانے والے ذخائر بھی شامل کرلیے جائیں تو کمی یا بحران کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔
ان کے بقول اگر حکومت اسٹرٹیجک ریزرو کے طور پر اضافی گندم رکھنا چاہتی ہے تو پھر اسے عالمی مارکیٹ کا رخ کرنا ہو گا جہاں کرونا وبا کے بعدپیدا ہونے والی صورتِ حال اور روس ، یوکرین جنگ میں گندم کی قیمتیں گزشتہ برس کے مقابلے دگنی ہو چکی ہیں۔
ماہر اجناس شمس الاسلام کا بھی کہنا ہے کہ روس اور یوکرین دونوں ہی زرعی پیداوار خاص طور پر گندم برآمد کرنے والے بڑے ممالک ہیں۔ گندم کی حالیہ قیمتوں میں اضافے کی ایک وجہ دونوں ممالک کے درمیان جاری جنگ ہے جو فوری طور پر رُکتی دکھائی نہیں دیتی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ماضی قریب میں بھی یوکرین سے گندم منگواچکا ہے۔ لیکن اگر جنگ کے سائے نہیں چھٹتے تو اس صورت میں پاکستان کو امریکہ یا آسٹریلیا سے گندم منگوانی پڑسکتی ہے جو معیار میں نہ صرف کم درجے ہے بلکہ اس کی ٹرانسپورٹیشن قیمت بھی زیادہ ہے۔
'پاکستان میں گندم کی پیداوار کم، بھارت میں زیادہ'
ماہر اجناس شمس الاسلام کہتے ہیں کہ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں رواں سال 111 ملین ٹن کی گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے، جو بھارت کی ضرورت سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں اس شاندار پیداوار کی ایک وجہ وہاں زراعت کے لیے جدید ٹیکنالوجی کےا ستعمال میں اضافہ بھی ہے۔
اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایک طویل عرصے سے کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات منقطع ہیں۔ تاہم شمس الاسلام کے بقول ملک میں گندم کی کمی کی صورت میں حکومتِ پاکستان کو معاشی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے بھارت سے گندم منگوانی چاہیے جو دیگر ممالک کی نسبت سستی پڑے گی۔
دوسری جانب وزیرِاعظم شہباز شریف نے ملک میں خصوصاً خیبرپختونخوا میں آٹے کے بحران کے خدشے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر صورت آٹے کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں گے۔
گزشتہ ہفتے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وزیراعظم کو بتایا گیا کہ ملک کو گندم کےذخائر مستحکم رکھنے کے لیے30 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کرنا پڑ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کو پہلے ہی رواں سال کے نو ماہ میں جاری کھاتوں میں 13 اعشاریہ دوارب ڈالر خسارے کا سامنا ہے۔ملک کو کئی بین الاقوامی ادائیگیاں بھی کرنی ہیں جب کہ مرکزی بینک کے پاس محض 10 اعشاریہ 49 ارب ڈالرز کے ذخائر بچے ہیں۔