ڈاکٹر ابراہیم خلیل چھ روز گزرنے کے بعد بھی بازیاب نہیں کرائے جا سکے

فائل

بلوچستان سے گزشتہ دنوں اغوا کئے جانے والے معروف سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو چھ روز گزرنے کے بعد بھی بازیاب نہیں کرایا جا سکا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر کی بازیابی کےلئے کوششیں جاری ہیں۔

کوئٹہ شہر کے معروف علاقے ماڈل ٹان سے نامعلوم مسلح افراد نے سرجن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کو رات کو گھر جاتے ہوئے اغوا کرلیا تھا۔ سرجن خلیل کے خاندانی ذرائع اور پولیس حکام کے بقول، مغویوؒں کی طرف سے ابھی تک کسی قسم کے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے صوبائی صدر ڈاکٹر کلیم اللہ مندوخیل نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ڈاکٹروں کا احتجاج جاری ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’پی ایم اے کے رہنماں نے مقامی انتظامیہ اور پولیس حکام سے بھی ملاقاتیں کی ہیں۔ لیکن ابھی تک کسی بھی جانب سے ڈاکٹر خلیل کے اغوا کے حوالے سے نئی بات اور نہ ہی اغواکاروں کی طرف سے کوئی مطالبہ سامنے آیا ہے پولیس اپنی اور پی ایم اے اپنی جگہ پر کام کر رہی ہے۔ ہم اب اپنے احتجاج کا دائرہ وسیع کرینگے اور جلد ہی وزیر اعلیٰ ہاس کے سامنے مظاہر ہ بھی کرینگے‘‘۔

ڈاکٹر کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ابراہیم کو اغوا کرنے والوں کے مقاصد ابھی تک واضح نہیں ہوئے، کیونکہ انہوں نے ڈاکٹر خلیل کے خاندان کے افراد اور نہ ہی کسی دوسرے سے کوئی مطالبہ کیا۔ البتہ جب اغواکار کسی بھی سطح پر رابطہ کر کے اپنا مطالبہ پیش کردینگے تو اس پر غور کیا جائیگا۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ کسی بھی ڈاکٹر کو اغوا کرنے والوں کے مقاصد واضح ہیں. اغوا کنندگان کے مقاصد وہی ہیں جو انہوں نے چند سال قبل ڈاکٹر غلام رسول، ڈاکٹر عبدالمناف ڈاکٹر سعید اور دیگر معروف ڈاکٹروں کے اغوا سے حاصل کئے۔

امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث، اُنھوں نے اغوا کاروں کے مقاصد کو واضح نہیں کیا۔ تاہم، ڈاکٹروں کے قریبی ذرائع نے نام نہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وی او اے کو بتایا کہ اب تک جتنے بھی ڈاکٹر اغوا ہونے کے بعد رہا کئے گئے انہوں نے اغوا کاروں کو اپنی رہائی کے عوض بڑی رقوم ادا کی ہیں۔

انسپکٹر جنرل پولیس محسن حسن بٹ کا کہنا ہے کہ نیوروسر جن ڈاکٹر ابراہیم خلیل کی بازیابی کےلئے تمام اداروں کی معاونت سے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جو اس اغوا کی واردات کے حوالے سے تمام پہلوں کا جائزہ لے رہی ہے۔

اُن کے بقول، ابھی تک ایسا کوئی گروہ یا گروپ سامنے نہیں آیا، جس نے مغوی کی رہائی کےلئے تاوان کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہو۔

چند سال پہلے اغواکاروں کو بھاری رقم کی ادائیگی پر رہا ہونے والے ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کر نے کی شرط پر بتایا کپ ’’بہت ہی مشکل دن ہوتے ہیں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اب پتہ نہیں کہ آپ کی اگلی سائنس اس دُنیا میں لے رہے ہوں گے یا پھر آپ ختم کردئے گئے ہوں گے۔ یہ زندگی میں سب سے بڑے اذیت اور ٹارچر سے بھرے دن ہوتے ہیں۔ آپکی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے۔ میں ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے تک اُن کے قبضے میں تھا۔ میری آنکھوں پر اس پورے عرصے کے دوران پٹی بندھی ہوئی تھی۔ دونوں ہاتھ میرے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ کھڑے کھڑے پیر تھک جاتے تھے۔

اغوکاروں کا مغویوں کے ساتھ برتا

ڈاکٹر کے بقول، اغوا کار 24 گھنٹوں میں آدھی روٹی اور ایک کپ قہوہ چائے دیتے ہیں اور صرف روٹی اور چائے پینے کے وقت وہ آنکھوں پر بندھی پٹی اور ہاتھ کھول دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ کبھی وہ آپ کو بہت مارتے ہیں۔ آپ کو اُلٹا لٹکاتے ہیںؒ۔ صبح شام ٹھنڈی زمین پر لٹاتے اور بٹھاتے ہیں، اُس کے ساتھ کبھی سر پر کھبی سینے پر مارتے ہیں اور کنپٹی پر پستول رکھ کر دھمکاتے ہیں۔ پھر سر پر یا سینے پر پستول رکھ کر کہتے ہیں کہ اگر آپ کو یہاں پر گولی مار دینگے تو تکلیف کم ہوگی۔ اگر سینے پر پستول ر کھ گولی ماریںگے تو تکلیف زیادہ ہوگی۔ مطلب ہر لمحہ آپ دُعا کرتے رہتے ہیں کہ کلمے کے ساتھ موت نصیب ہو جائے۔ بس۔

ڈاکٹر ابراہیم خلیل کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ اور پولیس حکام کے بقول، ان دنوں اُنکے بچے اپنے آبائی علاقے گئے ہوئے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر خلیل ابراہیم کی کسی سے کوئی دشمنی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔

پولیس کے سابقہ افسران کا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے متعلق کہنا ہے کہ ان واقعات میں ریاست کے خلاف بر سر پیکار کالعدم بلوچ عسکری اور مذہبی شدت تنظیمیں ملوث رہی ہیں، جن کو اپنی ریاست مخالف سرگرمیاں جاری رکھنے کےلئے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، جو وہ اس طرح کی وارداتوں سے پوری کرتے ہیں۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سنہ 2011 سے اب تک 30 سے زائد ڈاکٹروں کو اغوا اور 18 کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا ہے۔