کوئٹہ کے مضافاتی علاقے سریاب میں جمعہ کو مسلح افراد نے فائرنگ کر کے سات افراد کو ہلاک کردیا جب کہ گولیاں لگنے سے ایک شخص زخمی بھی ہوا۔ پولیس حکام کے مطابق پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں جانے کے خواہشمند ان افراد کو ایک ایجنٹ نے بس اڈے پر بٹھا رکھا تھا کہ موٹر سائیکل پر سوار نا معلوم مسلح افراد نے اُن پر بلا اشتعال فائرنگ کر دی۔
حکام کے مطابق تین افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ چار نے ہسپتال پہنچ کر دم توڑ دیا۔
ڈی آئی جی پولیس حامد شکیل کے بقول ہلاک ہونے والوں میں سے چار کا تعلق صوبہ پنجاب ، دو افغان اور ایک ایرانی باشندہ تھا۔ یہ واقعہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی کی رہائشگاہ سے نصف کلو میٹر کے فاصلے پر پیش آیا جہاں سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے تاہم تاحال کسی نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
حکام بلوچستان میں تشدد کی ایسی کارروائیوں کی ذمہ داری بلوچ عسکری تنظیموں پر عائد کرتے ہیں۔ ان حملوں کا ہدف اکثر سکیورٹی فورسز ، دوسرے صوبوں سے بلوچستان میں محنت و مزدوری کے لیے آنے والے لوگ، سرکاری ملازمین یا پھر گیس و بجلی کی تنصیبات ہوتی ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان کے اس صوبے میں حالیہ برسوں میں امن وامان کی صورت حال مسلسل ابتری کا شکار ہے۔ وفاقی حکومت نے بلوچ عوام کی شکایات اور مسائل کے ازالے کے لیے اہم سیاسی و انتظامی اقدامات بھی کیے ہیں لیکن اس کے باوجود تشدد کے واقعات کا سلسلہ جاری ہے۔
انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بلوچستان کے مسائل پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو صورت حال قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ وفاقی حکومت کا موقف ہے کہ وہ صورت حال سے آگاہ ہے اور بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے کے علاوہ قیام امن کے لیے مقامی فورسزکو بھی مزید فعال بنایا جارہا ہے۔