پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب 17 مئی کو خروٹ آباد میں فرنٹیئر کور اور پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے پانچ غیرملکیوں میں شامل نعمان نامی تاجک نوجوان اور اُس کی اہلیہ کو اُن کے رشتہ داروں کی موجودگی میں اتوار کے روز مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
نعمان کے والدین ہفتہ کو ایک روسی سفارت کار کے ہمراہ اسلام آباد سے کوئٹہ پہنچے تھے جہاں اُنھوں نے بولان میڈیکل کمپلکس میں رکھی گئی اپنے بیٹے اور بہو کی لاشوں کی شناخت کی۔
دونوں غیر ملکیوں کی نماز جنازہ میں سیاسی رہنماؤں کے علاوہ خر و ٹ آباد کے سینکڑوں رہائشیوں نے بھی شر کت کی ۔
کوئٹہ میں تدفین کے فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے مقتول نعمان کے والد نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اُن کے پاس اس قدر مالی وسائل نہیں کہ وہ اپنے بیٹے اور بہو کی لاشیں واپس تاجکستان لے جا سکیں۔اس موقع پر نعمان کے والد اور والدہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور دھاڑیں مار مار کر روتے رہے ۔ طبی رپورٹ کے مطابق نعمان کی بیوی حاملہ بھی تھی۔
پولیس اور ایف سی حکام نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ پانچوں غیر ملکی خودکش بمبار تھے جنھیں فرار ہونے کی کوشش کے دوران اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا لیکن بعد میں ہونے والی تفتیش سے معلوم ہوا کہ وہ نہتے تھے اور مبینہ طور پر انھیں پولیس کو رشوت نا دینے کی پاداش میں نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ہائیکورٹ کے ایک جج کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کر رکھا ہے جس نے اب تک موقع پر موجود صحافیوں ، خروٹ آباد کے رہائشیوں، پو لیس اور ایف سی کے حکام کے بیانات قلمبند کر لیے ہیں اور مزید شواہد اکٹھا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پاکستان بھر میں اس واقع کی شدید مذمت اور اس پر پرزور احتجاج کیا گیا جس میں اُس وقت مزید شدت آ گئی جب گزشتہ ہفتے کراچی میں بھی اسی نوعیت کا دوسرا واقعہ پیش آیا۔
مزید برآں کراچی میں گزشتہ ہفتے نیم فوجی فورس رینجرز کے اہلکار کی فائرنگ سے ایک نہتے نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات بھی جاری ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ٹیم نے اتوار سے اپنے کام کا آغاز کر دیا ہے۔