آزادیٔ اظہار رائے اور جمہوریت سے متعلق کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' نے سال 2020 میں پاکستان کو آزادی اظہار رائے پر 100 میں سے صرف 30 پوائنٹس دیے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی نے بدھ کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے کی صورتِ حال غیر تسلی بخش قرار دی ہے۔
سال 2020 کے لیے اپنی تشخیصی رپورٹ میں مذکورہ تنظیم نے کہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ برس آزادیٔ اظہارِ رائے کے حوالے سے ایک مشکل سال تھا۔
آزادیٔ اظہار رائے سے متعلق اس رپورٹ کی تیاری میں آزادی صحافت، ڈیجیٹل ایکسپریشن، سماجی ترقی، سیاسی صورتِ حال اور اظہار رائے پر دھمکیوں کے حوالے سے معلومات جمع کی گئی تھیں۔ جن میں میڈیا، مختلف تعلیمی اداروں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی رائے شامل تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2020 کے دوران پاکستان کے میڈیا اور انٹرنیٹ ریگولیٹری حکام سوشل میڈیا ایپس، تفریحی ایپس، سماجی ذرائع ابلاغ کے خلاف پابندی، معطلی، اور مشوروں کا حکم دے کر من مانی پابندیاں لگاتے رہے ہیں۔
SEE ALSO: انسانی حقوق سے متعلق امریکی رپورٹ: پاکستان اور بھارت کی صورتِ حال پر اظہارِ تشویشرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرونا وبا کے ساتھ گزارے جانے والے سال کے دوران پاکستان مین میڈیا سے وابستہ کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے جب کہ 36 صحافیوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران حملہ ہوا اور اس سال 10 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔
علاوہ ازیں رپورٹ کے مطابق 23 واقعات میں صحافیوں کے خلاف مقدمات کا اندراج ہوا جب کہ خواتین صحافیوں کو مربوط آن لائن حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان میں یورپی یونین کی سفیر انڈرولا کامینارا کا کہنا ہے کہ "آزادی اظہار رائے بنیادی حقوق کے یورپین چارٹر میں شامل ہے، یہ پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان جی ایس پی پلس اسٹیٹس اور انسانی حقوق کی صورتِ حال کے حوالے سے اہم پہلو ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ اس رپورٹ میں پاکستان میں صحافیوں کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے اور ہمیں اس معاملے پر تحفظات ہیں۔
'پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے'
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی رپورٹ کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ "پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔"
حکومت کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ صحافیوں کے خلاف کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی جا رہیں۔
SEE ALSO: پیمرا کو مزید اختیارات دینے کا بل سینیٹ سے مسترد، میڈیا ورکرز کا فائدہ یا نقصان؟حالیہ دنوں میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی تقریب میں وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا تھا کہ "حکومت کسی قسم کی قدغنیں نہیں لگانا چاہتی، حکومت آزادیٔ اظہارِ رائے پر مکمل یقین رکھتی ہے اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔"
دوسری جانب وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ "ہم صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی تمام تر مشکلات میں ان کا ساتھ دیں گے۔"
'حکومت کو صورتِ حال سے خبردار کر چکے تھے'
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے سابق صدر افضل بٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت جو صورتِ حال ہے وہ صرف صحافیوں کے لیے نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کے لیے بھی نامناسب ہے۔
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو خبردار کر چکے تھے کہ "سینسرشپ کی صورتِ حال" کو بہتر بنانا ہو گا لیکن ان کے مطابق حکومت نے اس معاملے پر اب تک کچھ نہیں کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سینسرشپ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی بنتی جا رہی ہے اور کہا کہ اس سے بین الاقوامی ادارے پاکستان کی رینکنگ، بالخصوص یورپی یونین میں پاکستان کے جی ایس پی پلس درجے پر اثر پڑسکتا ہے لیکن حکمران اب تک اس صورتِ حال سے نظریں چرا رہے ہیں۔
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی صدف بیگ دعوی کرتی ہیں کہ کرونا وبا کے دوران حکومت نے اپنے خلاف آنے والی آوازوں کو روکنے کی کوشش کی۔
ان کے بقول گزشتہ برس کرونا کی وجہ سے صحافیوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا اور ایسے میں حکومت نے آوازوں کو روکنے کی کوشش کی، جو حکومت کی نظر میں ان کے خلاف تھیں۔
صدف بیگ کہتی ہیں کہ کچھ قوانین جیسے سائبر کرائم، ان میں بھی کچھ نقائص موجود ہیں اور ان قوانین کا صحافیوں اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے پاکستان کو اس رپورٹ میں بہت کم اسکور ملا ہے۔