امریکہ اور نیٹو کی طرف سے سرحدی خلاف ورزیوں اور دو فوجی اہلکاروں کی ہلاکت پر معذرت کے باوجود پاکستان نے نیٹو افواج کے لیے طورخم کے راستے رسد کی ترسیل بحال کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ دوست اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں اور ان کا ملک مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے اس دوطرفہ تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا خواہا ں ہے۔
انھوں نے کہا کہ 30 ستمبر کو پاکستان کی ایک سرحدی چوکی پر نیٹو کے حملے اور اس میں دو اہلکاروں کی ہلاکت کے واقعہ کی مشترکہ تحقیقات مکمل ہو چکی ہیں جبکہ اس غلطی پر اتحادی افواج اور امریکہ نے معذرت بھی کرلی ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ امریکہ اور نیٹو دونوں نے پاکستان کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے ۔
تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ متعلقہ حکام سکیورٹی کی صورت حال کا جائز ہ لے رہے ہیں اور نیٹو کی رسد لے جانے والے قافلوں کے لیے سرحد کھولنے کا فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔
ایک ہفتے قبل نیٹو ہیلی کاپٹروں کی پاکستانی سرحدوں کی بار بار خلاف ورزیوں اور کرم ایجنسی میں پاکستانی چوکی پر ہلاکت خیز حملے کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ طور خم سرحد کو بند کردیا تھا جس کے بعد کراچی سے چلنے والے سینکڑوں قافلے قومی شاہراہ پر جگہ جگہ رکنے پر مجبور ہو گئے۔
اس موقع کا فائد اٹھاتے ہوئے طالبان شدت پسندوں نے چھ مختلف مقامات پر حملے کرکے بین الاقوامی افواج کے لیے پاکستان کے راستے ایندھن اور دیگر ضروری سامان لے جانے والے قافلوں میں شامل ایک سو سے زائد ٹرکوں اورآئل ٹینکروں کو نذر آتش کردیا جبکہ ان واقعات میں چھ افراد بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے وائٹ ہاؤ س کی طرف سے ایک تازہ رپورٹ میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کارکردگی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو دراصل اس میں قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ صوبے میں پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو بالواسطہ طور پر سراہا گیا ہے۔ عبدالباسط نے کہا کہ اس رپورٹ میں یہ اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی استعداد اور اس کے ساتھ عسکریت پسندوں کے حوالے سے خفیہ معلومات کے تبادلے کے نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
مبینہ امریکی ڈرون حملوں میں غیر معمولی اضافے پر تبصرہ کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر کہا کہ پاکستان ان کارروائیوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی اور دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، اس لیے امید ہے کہ امریکہ اپنی اس پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لے گا جسے سابقہ بش انتظامیہ نے متعارف کرایا تھا۔