پاکستان نے افغانستان میں امریکی ڈرون حملے کے لیے اپنی سرزمین استعمال ہونے کے طالبان حکومت کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے اور اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ کسی بھی قسم کے شواہد کے بغیر قیاس آرائیوں پر مبنی اس طرح کے الزامات عائد کرنا مایوس کن ہے جب کہ طالبان کے وزیر نے خود تسلیم کیا کہ ان کے پاس پاکستان سے ڈرون پروازوں کے اڑنے سے متعلق شواہد نہیں ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بے بنیاد الزامات اعلیٰ سفارتی اقدار کے خلاف ہیں۔
افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع ملا یعقوب مجاہد نے اتوار کو کابل میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ افغانستان کے خلاف امریکہ کی ڈرون کارروائیوں کے لیے پاکستان اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ دے۔ امریکی ڈرون طیارے افغانستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کی فضائی حدود پر پروازیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی ڈرون پاکستانی فضائی حدود استعمال کر رہے ہیں؛ طالبان کے وزیرِ دفاع کا الزامملا یعقوب کا یہ بیان کابل میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے لگ بھگ ایک ماہ کے بعد سامنے آیا ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے قائم مقام افغان وزیرِ دفاع کے بیان پر ردِ عمل میں کہا ہے کہ پاکستان تمام ملکوں کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر یقین رکھتا ہے اور دہشت گردی کی ہر قسم کی مذمت کرتا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی قائم مقام حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے مقاصد کے لیے کسی بھی ریاست کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے سے متعلق اپنے وعدوں کی پاسداری کریں گے۔
افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع ملا یعقوب مجاہد کے بیان کے بعد مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کے الزامات سے اسلام آباد اور کابل کے درمیان باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔
افغانستان کی ’پژواک نیوز ایجنسی‘ کے سینئر ایڈیٹر مدثر شاہ کا وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ملا یعقوب مجاہد کی پریس کانفرنس بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شہہ سرخیوں کے طور پر سامنے آئی البتہ بغیر ثبوت کے اتنا بڑا الزام مناسب نہیں ہے۔
مدثر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ 2001 کے بعد سے افغانستان کے حکمران ملک کے اندر ہر قسم کی دخل اندازی کا براہِ راست الزام پاکستان پر ہی لگاتے آ رہے ہیں اور ملا یعقوب مجاہد کا الزام بھی اسی سے ملتا جلتا ہے۔
کابل میں مقیم افغان نشریاتی ادارے ’طلوع نیوز‘ سے وابستہ ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت افغانستان میں مقامی افراد کی یہی سوچ ہے کہ طالبان پاکستان کے ہی کارندے ہیں اور طالبان بھی اس حقیقت سے واقف ہیں۔ اسی لیے وہ پاکستان پر الزامات لگاتے ہیں تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اب عوام طالبان کی اہلیت پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں کیوں کہ نہ تو ان کے پاس امریکہ کے ڈرون حملوں کا توڑ ہے اور نہ ہی پاکستان کے جیٹ طیاروں کی کارروائیوں کا، اور وہ گھبراہٹ کا بھی شکار ہیں۔ اسی لیے آئے روز اس قسم کے الزامات لگاتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کہتے ہیں کہ طالبان کی جانب سے ایک ایسے وقت میں اس قسم کے الزامات لگائے گئے ہیں، جب پاکستان میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان براہِ راست امریکہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو افغانستان کے خلاف اڈے نہ دینے کی پاداش میں گرایا گیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس قسم کے بیانات پاکستان کے لیے مستقبل میں بہت زیادہ نقصانات پیدا کر سکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے میں مذہبی اور جہادی گروہوں کو طالبان کے حامیوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
سمیع یوسف زئی کا کہنا تھا کہ حال ہی میں طالبان کی شوریٰ کے اجلاس میں سپریم لیڈر نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ کچھ ممالک (افغانستان کے خلاف) امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس لیے طالبان کے ذہنوں میں ہے کہ ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے ہی افغانستان میں ہو رہے ہیں۔
سمیع یوسف زئی کے مطابق طالبان کی حکومت اگرچہ کمزور ہے البتہ ان کے پاس جنگ کی استعداد موجود ہے۔ اس صورتِ حال میں وہ کسی بھی ملک کو براہِ راست جنگ کی دھمکی دے سکتے ہیں جو کہ ایک خطرناک صورتِ حال ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان جیسے ممالک، جو طالبان کی حکومت کے گزشتہ دور میں طالبان مخالف گروہوں کی مدد کرتے تھے، بھی احتیاط کا مظااہرہ کر رہے ہیں۔
طالبان متعدد بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی ملک کے خلاف افغان سرزمین استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ تاہم جولائی میں القاعدہ رہنما کی کابل میں ہلاکت کے بعد طالبان پر اپنے دیگر وعدوں کی طرح اس وعدے کی خلاف ورزی کا بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم نہیں کریں گے۔
طالبان نے امریکی ڈرون حملے کے بعد جاری ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ وہ کابل میں ایمن الظواہری کی موجودگی سے لاعلم تھے۔ البتہ طالبان نے ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے امریکہ کی افغانستان سے انخلا کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ امریکہ نے بھی ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کو امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔