سری لنکا کے ہمبنٹوٹا بندر گاہ پر چین کے مبینہ طور پر جاسوسی کرنے والے بحری جہاز ’یوآن وانگ فائیو‘ کے لنگر انداز ہونے کے بعد بھارت اور چین کے درمیان بظاہر تلخی بڑھ گئی ہے اور اب دونوں ملکوں میں اس سلسلے میں بیان بازی بھی جاری ہے۔
نئی دہلی نے مذکورہ چینی جہاز کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی مخالفت کی تھی اور اسے بھارت کی سیکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ جس پر سری لنکا نے چین سے جہاز نہ بھیجنے کا کہا۔ لیکن پھر اس نے چینی جہاز کے بندرگاہ پر 16 سے 22 اگست تک لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
اس تنازعے میں نیا موڑ سری لنکا میں چین کے سفیر کیو ژنہانگ کے اس مضمون سے پیدا ہوا جو انھوں نے کولمبو میں چینی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے لیے لکھا اور جسے سری لنکا کے ایک مقامی اخبار سری لنکا گاجین نے بھی شائع کیا۔
چینی سفیر نے اس مضمون میں اشارں کنایوں میں بھارت پر سری لنکا کے اندرونی امور میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ سری لنکا کو حمایت کی ضرورت ہے نہ کہ کسی دوسرے ملک کے پیدا کردہ تنازعات کی۔
چینی سفیر نے اپنے مضمون میں ’شمالی پڑوسی کی جارحیت‘ کی تاریخ کا حوالہ دیا تھا۔اس مضمون کا عنوان تھا ’ون چائنا پالیسی سے یو آن وانگ فائیو تک‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئیے متحد ہو کر اپنی خود مختاری، آزادی اور علاقائی سا لمیت کا مکمل تحفظ کریں۔
اس پر بھارت نے ہفتے کی شام کو سخت ردعمل ظاہر کیا اور اسے سفارتی اخلاقیات کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ قرض بانٹ کر دبانے کا ایجنڈہ چھوٹے ملکوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے مطابق حالیہ واقعات سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
کولمبو میں بھارتی سفارت خانے نے اس پر اپنے سخت ردعمل میں یہ بھی کہا کہ چینی سفیر کی بنیادی سفارتی آداب کی خلاف ورزی ان کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے یا پھر یہ ایک بڑے قومی رویے کی عکاسی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ سری لنکا کے ’شمالی ہمسایے‘ کے بارے میں ان کا نظریہ ان کے اپنے ملک کے رویے کا مظہر ہو۔
یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے چینی بحری جہاز کی آمد کی مخالفت کو چین نے سری لنکا پر بھارت کا دباؤ قرار دیا تھا۔ جس پر بھارت نے کہا تھا کہ سری لنکا ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور وہ اپنے آزاد فیصلے کرتا ہے۔
بھارت کی مخالفت کے بعد سری لنکا نے اس شرط پر چینی بحری جہاز کے لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی کہ چینی جہاز سری لنکا میں پانیوں کے نیچے کوئی تحقیقی کام نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ بھارتی میڈیا میں چین کے مذکورہ جہاز کو ایک جاسوسی جہاز بتایا گیا جب کہ چین کا کہنا تھا کہ وہ تحقیق اور سروے کرنے والا جہاز ہے۔ البتہ نئی دہلی کے مبصرین نے بھی اسے جاسوسی جہاز قرار دیا تھا۔
امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ’یوآن وانگ فائیو‘ سیریز کے تحت آنے والے اس جہاز میں ٹاپ آف دی لائن اینٹینا اور الیکٹرانک آلات نصب ہیں جو میزائلوں اور راکٹوں کو ٹریک کر سکتے جب کہ ان کے لانچ میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ جہاز 750 کلومیٹر تک نگرانی کرسکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی ساحل پر بھارت کی اسٹریٹجک سرگرمیاں اس کی نظر میں رہیں گی۔
نئی دہلی کا خیال ہے کہ اس جہاز سے بھارت کی کودن کولم اور کلپکم جوہری تنصیبات جب کہ چنئی اور تھوٹوکودی بندرگاہوں کے تحفظ کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو بیان بازی شروع ہوئی ہے وہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے یہ معاملہ چلا آرہا تھا۔ ان کے خیال میں اس وقت سری لنکا کے جو اقتصادی حالات ہیں ان میں چین کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ چین نے سری لنکا کے ہمبنٹوٹا بندر گاہ کو 90 ملین ڈالر کے عوض 99 سال کے لیے لیز پر لے لیا ہے۔ اب وہ اس کا مالک ہے۔ اسی نے اس کو بنایا بھی ہے۔ لیکن چونکہ وہ بندرگاہ سری لنکا میں ہے اس لیے چین کو کوئی بھی فوجی بحری جہاز اس بندرگاہ پر بھیجنے کے لیے سری لنکا کی اجازت کی ضرورت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’یو آن وانگ فائیو‘ فوجی جہاز نہیں ہے البتہ اسے ٹریکنگ شپ کہا جاتا ہے۔ ٹریکنگ شپ وہ ہوتا ہے جو سمندر کے نیچے بچھائی جانے والی کیبل میں تاک جھانک (بظاہر جاسوسی) کرتا ہے اور کیبل کے ذریعے ارسال کیے جانے والے پیغامات کا تجزیہ کرتا ہے۔
ان کے مطابق موجودہ دور میں سمندر کے نیچے بچھائی جانے والی کیبلز کی مدد سے مختلف ممالک کے درمیان ڈیٹا جاتا ہے۔ متعدد ممالک کیبل کے ذریعے دوسرے ملکوں کے ڈیٹا کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان کیبلز کے ذریعے ہمارے ملک کے خلاف کوئی ڈیٹا تو نہیں جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو اس جہاز کے حوالے سے یہی تشویش تھی کہ اس کی زد پر اس کی جوہری تنصیبات آ جائیں گی اور چین ان کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ بھارت کو اندیشہ تھا کہ چونکہ اس جہاز کی ساڑھے سات سو کلومیٹر تک نظر رکھنے کی صلاحیت ہے اس لیے اس دائرے میں کلپکم کی جوہری تنصیبات، کوچی میں جنوبی بحری ہیڈ کوارٹر اور کودن کولم میں دوسری بحری تنصیب اور جنوبی بھار ت میں جو چھ کامرشیل فورسز ہیں، وہ سب اس کی زد میں آرہے تھے۔
اسد مرزا کے مطابق سری لنکا کے حالیہ اقتصادی بحران کے دوران بھارت نے اس کی جو مدد کی وہ چین کو ناگوار گزری ہے۔ وہ سری لنکا پر اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔
ان کے خیال میں چینی سفیر نے مذکورہ مضمون جان بوجھ کر لکھا تاکہ اگلے ماہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے جو مذاکرات ہونے والے ہیں وہ ناکام ہو جائیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان سولہ دور کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔ مزاکرات کا سترہواں دور جلد ہی منعقد ہونے والا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین نہیں چاہتا کہ اگلے دور کے مذاکرات میں بھارت کو کوئی کامیابی ملے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان بیان بازی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے 21 اگست کو ایک بیان میں الزام لگایا کہ چین بھارت کے ساتھ ہونے والے سرحدی معاہدوں کا احترام نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے رشتوں پر اثر پر رہا ہے۔
انھوں نے جنوبی افریقہ کے اپنے چھ روزہ دورے کے دوران برازیل کے شہر ساو پاولو میں یہ بیان دیا۔ انھوں نے گلوان وادی میں پیش آنے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے اور اس کا سایہ باہمی رشتوں پر پڑ رہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارتی سرحد کے نزدیک چین کی جانب سے متعدد تعمیرات کی رپورٹس ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سولہ راونڈ کے مذاکرات کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔
چین نے جے شنکر کے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ چین کے سرکاری میڈیا گلوبل ٹائمز کے مطابق چین نے نہیں بلکہ بھارت نے معاہدوں کا احترام نہیں کیا اور سرحد عبور کی۔ اس نے بھارت پر چین کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ اخبار کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایس جے شنکر کا بیان دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔