کالعدم لشکر طیبہ کے بانی رہنما حافظ محمد سعید کی گرفتاری سے متعلق امریکی اعلان کا گزشتہ کئی روز سے مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چرچا ہے مگر امریکی وزارتِ خارجہ کے اعلامیے کا بغور جائزہ لینے والے بعض ناقدین نے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ اس بارے میں میڈیا میں شائع ہونے والی زیادہ تر خبریں اصل تحریر کی عکاس نہیں ہیں۔
ان ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی اعلامیے میں بالواسطہ طور پر یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ حافظ سعید کے خلاف اب تک ایسے کوئی ٹھوس شواہد دستیاب نہیں ہیں جن کی بنیاد پر ممبئی حملوں سمیت دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی میں ملوث ہونے کے شبہے میں اُنھیں گرفتار کرکے کامیاب مقدمہ چلایا جا سکے۔
امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی سرکاری تحریر میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’حافظ محمد سعید کے بارے میں ایسی معلومات کی فراہمی پر ایک کروڑ ڈالر نقد انعام دیا جائے گا جو اُسے گرفتار کرنے یا پھر عدالت سے سزا دلوانے میں مدد دے سکیں۔‘‘
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس تحریر میں لشکر طیبہ کے بانی رہنما کے ٹھکانے سے متعلق معلومات فراہم کرنے کا تقاضا نہیں کیا گیا ہے جب کہ ذرائع ابلاغ نے اکثر خبریں اس کے برعکس شائع کی ہیں۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ کے اعلامیے میں زیادہ سنجیدہ تحریر کالعدم لشکر طیبہ کے نائب سربراہ حافظ عبد الرحمٰن مکی سے متعلق ہے کیونکہ اس میں 20 لاکھ ڈالر کی انعامی رقم ایسی معلومات کے عوض دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ججن سے اس کی قیام گاہ تک پہنچنے اور گرفتاری میں مدد ملے۔
’’بیس لاکھ ڈالر تک کی انعامی رقم ایسی معلومات کی فراہمی پر دی جائے گی جو لشکر طیبہ کے نائب سربراہ کی موجودگی کے مقام تک رہنمائی کر سکیں۔‘‘
مبصرین کا ماننا ہے کہ بظاہر ’’حقائق کے برعکس‘‘ میڈیا کی انہی خبروں کو بنیاد بنا کر حافظ سعید نے امریکی اعلان کو ’’مضحکہ خیز‘‘ اور خود کو انعامی رقم کا ’’حقدار‘‘ قرار دیا ہے۔
لیکن پاکستان کے سیاسی اور فوجی قائدین کو شاید امریکی اعلان کے بارے میں کوئی ابہام نہیں، اس لیے حکام نے حافظ سعید کو بدھ کے روز پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹرز کے بالمقابل ایک ہوٹل میں بیٹھ کر نیوز کانفرنس کرنے سے نہیں روکا۔ یہ پیش رفت اسلام آباد کے سرکاری موقف کا اعادہ بھی کرتی ہے کہ حافظ سعید کے خلاف ٹھوس شواہد کی عدم دستیابی تک وہ ایک آزاد پاکستانی شہری ہیں۔
جمعرات کے روز دفتر خارجہ میں ہفتہ وار نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان عبد الباسط نے بھی انعامی رقم سے متعلق ایک روز قبل واشنگٹن میں جاری کیے گئے امریکی وضاحتی بیان کا حوالہ دیتے ہوئے حافظ سعید کے خلاف پاکستانی سرزمین پر کسی ممکنہ امریکی کارروائی کے خدشات کو رد کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکی اعلان خود پاکستان کے لیے بھی تعجب انگیز ہے۔
’’اب اگر یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ نقد انعام کا مقصد مزید معلومات اور شواہد کا حصول ہے تو میرے خیال میں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ خود امریکہ کے پاس بھی ان دونوں افراد کے خلاف ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔‘‘
حافظ سعید کالعدم پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ کے بانی ہیں جسے امریکہ نے 20 دسمبر 2001ء کو ایک غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اس پاکستانی بنیاد پرست رہنما نے بھارتی شہر ممبئی میں اُس چار روز تک جاری رہنے والے دہشت گرد حملے کی منصوبہ سازی میں بھی حصہ لیا تھا جس میں چھ امریکی شہریوں سمیت 166 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
’’سعید اور اُس کی تنظیم دہشت گردی کی ترغیب دینے والے نظریے کا پرچار، امریکہ، بھارت، اسرائیل اور دیگر تصوراتی دشمن ملکوں کے خلاف سخت زہریلی بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
امریکی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں حافظ سعید کی تاریخ پیدائش 5 جون، 1950ء اور جائے پیدائش صوبہ پنجاب بتائی ہے، جبکہ آج کل وہ لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
لشکر طبیہ کے اس بانی رہنما کا نام انفرادی حیثیت میں 10 دسمبر 2008ء کو اقوام متحدہ کی القاعدہ کے خلاف تعزیرات سے متعلق کمیٹی کی فہرست میں بھی یہ کہہ کر شامل کیا گیا تھا کہ حافظ سعید دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستہ ہے۔
اُن کے نائب حافظ عبد الرحمٰن کو لشکر طیبہ کے سیاسی اُمور سے متعلق شعبے کا سربراہ بتایا گیا ہے کہ جو ماضی میں تنظیم کے خارجہ تعلقات کے شعبے کی قیادت بھی کر چکے ہیں اور مالی وسائل اکٹھے کرنے میں مدد کرتے رہے ہیں۔
’’اُنھوں نے 2007ء کے اوائل میں دہشت گردی کے ایک تربیتی مرکز کے لیے تقریباً دو لاکھ اڑتالیس ہزار ڈالر جبکہ تنظیم سے جڑے ایک مدرسہ کو ایک لاکھ پینسٹھ ہزار ڈالر فراہم کیے تھے۔‘‘
پنجاب ہی سے تعلق رکھنے والے مکی کا سن پیدائش 1948ء کے آس پاس بتایا گیا ہے۔
’’ان دونوں شخصیات کے بارے میں مطلوبہ معلومات کے حامل افراد کی ہم حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ کسی قریبی امریکی سفارت خانے یا کونسل خانے، کسی امریکی فوجی کمانڈر یا پھر انعامی رقوم دینے والے وزارت انصاف کے متعلقہ دفتر کی ویب سائیٹ، یا پھر بذریعہ ڈاک رابطہ کریں۔‘‘
انعامی رقوم کے اس امریکی منصوبے کے تحت اب تک دس کروڑ ڈالر اُن 70 سے زائد افراد میں تقسیم کیے جا چکے ہیں جنھوں نے دہشت گردوں کو جیل بھیجوانے یا پھر دنیا بھر میں بین الاقوامی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس معلومات فراہم کیں۔