روس اور پاکستان نے خطے میں داعش کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی تعاون کا ایک کمیشن قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اس خطرناک گروپ کی بڑھتی ہوئے قوت کو نظر انداز کر رہا ہے۔
روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کے روز ماسکو میں کہا کہ ہم دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق پاکستان کی صلاحیت بڑھانے کے لیے روس کی آمادگی کی تصدیق کر چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ داعش پورے خطے کے مفادات کے لیے خطرہ ہے۔
منگل کے روز ماسکو میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ساتھ نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے سرگئی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اولیت حاصل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روس اور پاکستان کی اسپیشل فورسز کے درمیان 2016 سے فوجی مشقیں ہو رہی ہیں جو اس سال بھی جاری رہیں گی۔
لاوروف سرگئی نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کی قیادت کے اتحاد کی جانب سے داعش کے خطرے کو کچلنے کی کوششوں پر ماسکو کو سنجیدہ نوعیت کے شکوک و شبہات ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ روس اور پاکستان کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے مشرقی اور شمالی سرحدی علاقوں میں داعش کے دہشت گرد موجود ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جس سے یہ خطرہ بڑھ رہا ہے کہ وہ وسطی ایشیا اور روس میں داخل ہو سکتے ہیں۔
روس اور ہمسایہ ملک ایران کی جانب سے ان الزامات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ افغانستان میں داعش کے ابھرنے میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شام اور عراق سے فرار ہونے والے داعش کے جنگجو اپنے لیے شورش زدہ ملک افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصف کے خدشات سے اتفاق کرتے ہوئے نامہ نگاروں سے کہا کہ افغانستان میں داعش کی موجودگی میں اضافے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورت حال کو تسلیم ہی نہیں کیا جا رہا، نہ ہی واشنگٹن اور نہ ہی کابل اس خطرے کا نوٹس لے رہے ہیں۔ ان کی بڑھتی ہوئی موجودگی وسطی ایشیا، پاکستان، چین اور آخرکار روسی وفاق کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ اور یہ چیز بہت الارمنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ داعش کے دہشت گردوں کی مشرق وسطی سے آمد کی وجہ سے ان کی تعداد افغانستان میں طالبان کے کئی گروہوں کے مقابلے میں بڑھ ہو چکی ہے۔
واشنگٹن ان الزامات کو، کہ وہ افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کی حمایت کر رہا ہے، افوائیں قرار دیتے ہوئے سختی سے مسترد کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی فورسز کے ساتھ مل کر کارروائیاں کر رہا ہے جس سے دہشت گردوں کو خاطر خواہ نقصان پہنچا ہے اور ان کی تعداد گھٹ گئی ہے۔
واشنگٹن نے پاکستان کی فوجی امداد معطل کر دی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات امریکی عہدے داروں کے ان دعوؤں کی وجہ سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں کہ ایسے شواہد موجود نہیں ہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دباؤ، ہمسایہ ممالک روس اور چین سے اس کے رابطوں کو مزید تقویت رہے رہا ہے ۔