کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی ترکی کے حوالے کرنے کی تجویز، پاکستان کا کردار کیا ہوگا؟

فائل فوٹو

پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں بین الاقوامی ہوئی اڈے کی سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی کوئی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے گزشتہ ہفتے نیٹو اجلاس کے موقع پر پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ترکی کو غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکیورٹی مشن کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ہنگری کا تعاون بھی درکار ہو گا۔

زاہد حفیظ چوہدری نے جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کا تعاون فراہم کرنے کی تجویز زیرِ غور نہیں ہے۔ البتہ افغان امن عمل کے لیے اسلام آباد مناسب کردار ادا کرنے لیے پُر عزم ہے۔

اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ترکی کے قریبی تعلقات کے باوجود غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں اسلام آباد کا کسی بھی سیکیورٹی مشن کے لیے فوجی تعاون فراہم کرنے کا امکان کم ہی ہے۔

افغان امور کے تجزیہ کار صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کے پیشِ نظر شاید پاکستان کے لیے افغانستان میں فوجی تعینات یا تعاون فراہم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔

رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی فوج کو افغانستان بھیجے۔ افغانستان میں حکمران اور عوام بھی پاکستان کی فوج کے افغانستان میں موجودگی کے حق میں نہیں ہیں۔

افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلا کے بعد ترکی کے اہلکاروں کی کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے موجودگی کی تجویز کی طالبان مخالفت کر رہے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا انخلا کے بعد بھی امریکہ افغان فوج کی مدد جاری رکھے گا؟

افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل جاری ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ عمل صدر جو بائیڈن کی اعلان کردہ 11 ستمبر 2021 کی ڈیڈل لائن سے قبل مکمل ہو سکتا ہے۔ ایسے میں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان میں غیر ملکی فوج کے انخلا سے قبل کوئی تصفیہ نہ ہوا تو افغانستان کی سیکیورٹی کی صورتِ حال بگڑ سکتی ہے۔

امریکہ اور بعض دیگر ممالک کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے ترکی کی فوج کو افغانستان میں رکھنے کی تجویز پیش کر رہے ہیں ہے تاکہ یہ ایئر پورٹ فعال رہے۔

'افغانستان میں ترک فوج کے موجودگی کسی معاہدے کے تحت ہی ممکن ہے'

لیکن تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زائی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد ترک فوج کی افغانستان میں موجودگی افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کے تحت ہی ممکن ہے۔

ان کے بقول یہ اسی صورت میں ممکن ہو گا کہ جب طالبان اس بات پر راضی ہوں کہ کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے ایک محدود وقت تک غیر ملکی فوج موجود رہے تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنا جا سکے۔ البتہ اگر معاہدے کے بغیر ترکی اپنے فوجی اہلکاروں کو کابل میں رکھے گا تو یہ نہ صرف دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی اور طالبان کو شاید یہ کسی طور قبول نہیں ہو گا۔

یہ رپورٹس بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ انخلا کے بعد امریکہ افغانستان میں کسی بھی ہنگامی صورتِ حال اور دہشت گرد گروہوں کے منظم ہونے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے فوجی کارروائی کے لیے پاکستان سے زمینی یا فضائی اثاثے سہولت کے لیے حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔

اس حوالے سے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ترکی اور پاکستان کی اچھے تعلقات ہیں۔ امریکہ بھی یہ چاہتا ہے کہ نیٹو کے رکن ملک ترکی کے فوجی کابل میں موجود رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ترکی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ شاید طالبان اس بات پر تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہو گی کہ طالبان نے ترکی میں ہونے والی مجوزہ افغان امن کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا تھا۔

مبصرین کے خیال میں ترکی امریکہ کو باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں کابل ایئر پورٹ کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کا تعاون اور کردار اہم ہے۔ البتہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان امریکہ کو یہ سہولت فراہم کرنے سے اگرچہ انکار کر چکا ہے۔ البتہ پاکستان اس حوالے سے امریکہ اور ترکی کو مشروط تعاون فراہم کر سکتا ہے۔