پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک و افغان حکومتیں پاکستان میں قید باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کےلیے رابطے میں ہیں
واشنگٹن —
پاکستان کے ایک اعلیٰ سفارتی عہدیدار نے کہا ہے کہ ان کی حکومت افغانستان کی طالبان تحریک کے نائب سربراہ سمیت ملک میں قید تمام افغان طالبان کو رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اس بات کا عندیہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعے کو ابو ظہبی میں ایک پریس کانفرنس میں دیا۔
پاکستان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران میں کئی افغان طالبان رہنمائوں کو رہا کیا ہے۔ ان رہنمائوں کی رہائی افغان حکومت کے مطالبے پر عمل میں آئی ہے جو پاکستان سے مزید رہنمائوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔
افغان حکومت کا موقف ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پاکستان میں قید طالبان رہنمائوں کی رہائی ضروری ہے۔
جمعے کو پریس کانفرنس میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک و افغان حکومتیں پاکستان میں قید باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کےلیے رابطے میں ہیں جنہیں مرحلہ وار رہا کردیا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان طالبان تحریک کے نائب سربراہ ملا برادر کو بھی رہا کردے گا، تو جلیل عباس جیلانی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ "ان کا مقصد تمام قیدیوں کی رہائی ہے"۔
ملا برادر کو پاکستانی حکام نے 2010ء میں حراست میں لیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت کی خاطر افغان حکام ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے یہ پریس کانفرنس ابوظہبی میں قائم افغانستان کے سفارت خانے میں افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی ڈیوڈ پیئرس اور نائب افغان وزیرِ خارجہ جاوید لدّین کے ساتھ ملاقات کے بعد کی۔
صحافیوں سے گفتگو میں افغان نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سہ فریقی ملاقات کا مقصد تینوں ممالک کے مابین تعلقات کے سیکیورٹی و سیاسی جہات پر گفتگو کرنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں بعض طالبان رہنمائوں کی رہائی، افغان طالبان کی جانب سے قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی تیاری اور افغان صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورہ امریکہ کے نتیجے میں افغانستان میں جاری امن عمل میں تیزی آئی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق اس بات کا عندیہ پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے جمعے کو ابو ظہبی میں ایک پریس کانفرنس میں دیا۔
پاکستان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران میں کئی افغان طالبان رہنمائوں کو رہا کیا ہے۔ ان رہنمائوں کی رہائی افغان حکومت کے مطالبے پر عمل میں آئی ہے جو پاکستان سے مزید رہنمائوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہی ہے۔
افغان حکومت کا موقف ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ جاری امن مذاکرات میں پیش رفت کے لیے پاکستان میں قید طالبان رہنمائوں کی رہائی ضروری ہے۔
جمعے کو پریس کانفرنس میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ پاک و افغان حکومتیں پاکستان میں قید باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کےلیے رابطے میں ہیں جنہیں مرحلہ وار رہا کردیا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان طالبان تحریک کے نائب سربراہ ملا برادر کو بھی رہا کردے گا، تو جلیل عباس جیلانی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ "ان کا مقصد تمام قیدیوں کی رہائی ہے"۔
ملا برادر کو پاکستانی حکام نے 2010ء میں حراست میں لیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پیش رفت کی خاطر افغان حکام ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے یہ پریس کانفرنس ابوظہبی میں قائم افغانستان کے سفارت خانے میں افغانستان و پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی ڈیوڈ پیئرس اور نائب افغان وزیرِ خارجہ جاوید لدّین کے ساتھ ملاقات کے بعد کی۔
صحافیوں سے گفتگو میں افغان نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سہ فریقی ملاقات کا مقصد تینوں ممالک کے مابین تعلقات کے سیکیورٹی و سیاسی جہات پر گفتگو کرنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے حال ہی میں بعض طالبان رہنمائوں کی رہائی، افغان طالبان کی جانب سے قطر میں اپنا سیاسی دفتر کھولنے کی تیاری اور افغان صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورہ امریکہ کے نتیجے میں افغانستان میں جاری امن عمل میں تیزی آئی ہے۔