افغان عوام کی امداد کے لیے پاکستان نے ہزاروں میٹرک ٹن گندم افغانستان بھیجنے کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے، پاکستان کا کہنا ہے کہ ہمسایہ ملک کی ابتر معاشی صورت حال کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر امداد کی فوری فراہمی ضروری ہے، اور اس جانب بین الاقوامی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان افغانستان کو دو کروڑ 80 لاکھ ڈالر مالیت کی انسانی ہمدردی کی امداد دینے کا وعدہ کر چکا ہے، جس میں 50000 میٹرک ٹن گندم، سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے 'شیلٹر' اور ہنگامی بنیادوں پر طبی رسد کی فراہمی شامل ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران خوراک اور طبی امداد کے ساتھ بیسیوں ٹرک افغانستان کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ 1800 میٹرک ٹن گندم کی رسد کی پہلی کھیپ طورخم کی سرحد پر افغان حکام کے حوالے کی گئی ہے۔
SEE ALSO: امدادی اشیا کی فراہمی کے لیے امریکہ کی طالبان کے ساتھ محدود لین دین کی اجازتبیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ بین الاقوامی برادری افغان عوام کی مدد کے لیے فوری اقدام کرے تاکہ معاشی بحران کی اس صورت حال میں متاثرین کی مدد کی جا سکے اور معاشی صورت حال کو مستحکم کرنے کے کام میں مدد دی جا سکے۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ اگر بر وقت امداد افغانستان میں نہ پہنچی تو انسانی بحران اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث افغان عوام اس بات پر مجبور ہو جائیں گے کہ وہ پناہ کے لیے ہمسایہ ملکوں اور باقی دنیا کا رُخ کریں۔
پاکستان میں پہلے ہی تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین کے علاوہ معاشی تارکین وطن موجود ہیں، لیکن اپنی معاشی مشکلات کے سبب پاکستان اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ نئے مہاجرین قبول کر سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق کئی سالوں تک جاری رہنے والی لڑائی اور بین الاقوامی پابندیوں کے نتیجے میں تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ لوگ، یعنی افغانستان کی آبادی کا لگ بھگ 55 فی صد، ایسے ہیں جنھیں شدید بھوک کی صورت حال کا سامنا ہے، جب کہ 90 لاکھ کو قحط سالی کے خدشات لاحق ہیں۔
اگست میں امریکی قیادت والی اتحادی افواج کے انخلا اور ملک پر طالبان فوج کے کنٹرول کے بعد انسانی بحران کی صورت حال سنگین تر ہو چکی ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے فوری طور پر افغان معیشت کو فراہم کی جانے والی نقدی روک دی تھی، جب کہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران افغانستان کا غیر ملکی مالیاتی اعانت پر انحصار رہا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے لگ بھگ ساڑھے 9 ارب ڈالر کے افغانستان کے اثاثے منجمد اور طالبان پر مالی پابندیاں عائد کر دی ہیں، اس کی وجہ سے ملک کی معیشت غیر معمولی ابتری کی شکار ہے اور عام آدمی کو خوراک خریدنے کے لیے درکار رقم میسر نہیں ہے۔
عالمی سطح پر اپنی عبوری حکومت کو تسلیم کرانے اور منجمد فنڈ جاری کرانے کے طالبان کو مدد درکار ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے اس اسلام نواز گروپ کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان امریکہ اور دیگر ملکوں پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطہ کریں، تاکہ انسانی اور معاشی نوعیت کے اس بحران اور المیے سے باہر نکلا جا سکے۔
گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ خزانہ نے نئے اقدام کرتے ہوئے کابل پر عائد پابندیوں میں نرمی برتنے کا اعلان کیا،اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے لائسنس جاری کیے جائیں گے جن کی مدد سے افغانستان کے لیے کسی قدر بین الاقوامی امداد جاری ہو سکے، اور یہ امداد طالبان کی کالعدم قیادت کے ہاتھ نہ لگے۔ ان لائنسسوں کے ذریعے بیرون ملک رہنے والے افغان اپنے ملک رقوم بھی بھیج سکتے ہیں۔