پاکستان کی تاریخی عمارتوں میں ٹھٹھہ کی 'جامع مسجد شاہجہاں' مغلیہ دور کا تعمیراتی شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ دور مغلیہ میں ایک نہیں متعدد عمارات تعمیر ہوئیں جن میں دہلی اور لاہور کے شاہی قلعے، تاج محل اور دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہیں مگر صوبہ سندھ کی سر زمین پر واقع جامع مسجد شاہجہاں اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی سے تقریباً 62میل (98کلومیٹر دور) دور واقع ٹھٹھہ میں اس مسجد کی تعمیر 1644ء میں شروع ہوئی اور مجموعی طور پر یہ تین سال بعدیعنی 1647ء میں مکمل ہوئی ۔ مسجد کا کل رقبہ تقریباً چھ ہزار تین سو سولہ مربع گز ہے۔ اس دور کے حساب سے مسجد کی تعمیر پر نو لاکھ شاہجہانی روپے صرف ہوئے جو شاہی خزانے سے ادا کئے گئے تھے۔
مسجد اگرچہ ایک ہی منزلہ ہے مگرمضبوطی کی غرض سے اس کی بنیادیں بارہ سے پندرہ فٹ گہری ہیں۔ بنیاد میں پہاڑی پتھراستعمال کیا گیا ہے۔ مسجد میں تین جانب سے داخلے کے لئے پانچ دروازے بنائے گئے جن میں سے ایک مرکزی صدر دروازہ اور دو چھوٹے دروازے اطراف میں ہیں جبکہ ایک ایک دروازہ شمالی اور جنوبی دیواروں کے وسط میں ہیں۔
شاہجہانی مسجد کی خوب صورتی اس کے وہ چھوٹے بڑے گنبد ہیں جن کی تعداد 100 ہے ۔ مسجد کے اندر سے ان گنبدوں کو دیکھا جائے تو ان کے در ایک لائن میں اور ترتیب کے اعتبار سے بہت دلکش لگتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ہر در پہلے در سے چھوٹا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ گنبدوں میں چھ بڑے اور باقی چھوٹے گنبد ہیں۔
ہر گنبد کے نیچے نہایت چوڑے چوڑے ستون ہیں۔ ان ستونوں کی کل تعداد 94 ہے۔ چوکور گنبد سرخ او ر سفید پتھروں سے بنائے گئے ہیں اور ان کی سفید اور سرخ لائنیں مل کر ایک ایسا ڈیزائن ترتیب دیتی ہیں جو دیکھتے ہی بنتا ہے۔
گنبدوں کی ترتیب اور ہوا کی آمد ورفت کا انتظام کچھ اس خوبی سے رکھا گیا ہے کہ تلاوت و خطبے کی آواز پوری مسجد میں کسی صوتی آلے کے بغیر باآسانی سنائی دیتی ہے ۔ مسجد میں ہوا اور روشنی کے لئے دیواروں میں نہایت کشادہ اور جالی دار روشن دار بنائے گئے ہیں جوطاق کا بھی کام دیتے ہیں اور روشنی و ہوا بھی ان سے باآسانی گزرتی ہے ۔ ان روشن دانوں کی ترتیب بھی ایک خاص انداز میں رکھی گئی ہے ۔ اس کی بدولت مسجد کے کسی بھی حصے میں چلے جایئے ہوا اور روشنی کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی وجہ سے مسجد کا کوئی بھی حصہ تنگ محسوس نہیں ہوگا۔
مسجد میں بیس ہزار افراد بیک وقت نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کے خطیب و امام کا سلسلہ بھی شاہجہاں کے دور سے ایک ہی خاندان میں چلا آرہا ہے۔ موجودہ خطیب اور امام مسجد کا نام قاری عبدالباسط صدیقی ہے۔ ان کے شجرے سے تعلق رکھنے والے افراد نسل در نسل اس مسجد میں خدمات انجام دیتے آرہے ہیں۔
مسجد کے انتظامات سنبھالنے کے لئے باقاعدہ ایک کمیٹی موجود ہے ۔علاوہ ازیں اخراجات کے لئے چندے کا بھی سہارا لیا جاتا ہے ۔اس مقصد کے لئے مسجد کے اندر کچھ مقامات پر چندے کی پیٹیاں بھی رکھی گئی ہیں۔
وضوکی غرض سے مسجد میں ایک جانب خاصا وسیع وعریض حوض بناہوا ہے۔ گو کہ اب وہ اکثرو بیشتر خالی رہتا ہے لیکن اس کی چار دیواری کے ساتھ ساتھ نمازیوں کے وضو کرنے کی غرض سے کئی درجن نل نصب ہیں۔
مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث مسجد جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اکا دکا جگہوں سے نقشین ٹائلز بھی اکھڑ گئی ہیں۔ بعض جگہوں پر دیواروں میں پرندوں نے گھونسلے بنالیے ہیں۔
بیرونی اطراف شاہی گیٹ اور مسجد کی چار دیواری کے درمیان میں بڑا سا پارک بنایا گیا ہے جہاں کھجورکے قد آور درخت لگے ہوئے ہیں۔
مسجد میں لائٹنگ کامعقول انتظام ہے۔ پبلک ایڈریس سسٹم اور لاوٴوڈ اسپیکر بھی نصب ہیں۔ صدر دروازے پر فارسی کے اشعار کندہ ہیں جن میں شاہجہاں کا نام بھی تحریر ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک پتھر کی جائے نمازبھی تعمیر کی گئی ہے جس کے کناروں پر باقاعدہ نقش و نگار کندہ ہیں۔
مسجد میں جابجا نیلے اور سفید رنگ کے نقش و نگار والے بڑے بڑے ٹائلز نصب ہیں۔ کچھ ٹائل خاکی جبکہ کچھ براوٴن اور کچھ دیگر رنگوں کے بھی ہیں۔یہ مسجد کی خوب صورتی بڑھاتے ہیں۔ مسجد کے ممبر اور اس کے چاروں کونوں پر خاص اہتمام اور ڈیزائن کے ساتھ دلکش ٹائلز جڑے ہوئے ہیں جو نہایت قدیم ہونے کے باوجود آج بھی مسجد کی خوب صورتی میں اضافہ ہیں۔
مسجد کے تینوں جانب مقامی آبادی کے جدید انداز کے مکانات موجود ہیں جبکہ دائیں جانب والے دروازے کے اوپر اتفاق سے تین گنبد ایک ہی لائن میں موجود ہیں جو ماضی، ماضی قریب اور جدید زمانوں کے تعمیراتی فرق کا جیتا جاگتا اور بہت واضح ثبوت ہیں۔