عدالت عظمیٰ کی سرزنش کے بعد سندھ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ایک ہی روز میں سراج تالپور اور دیگر دو افراد کو گرفتار اور نامزد ملزمان کے گھر اور فیکٹریاں بھی سیل کردی تھیں۔
اسلام آباد —
کراچی میں ہونے والے جواں سال شاہ زیب خان کے قتل کے مفرور مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کے والد کو سندھ پولیس کے اہلکاروں نے جمعرات کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر سے حراست میں لے لیا۔
کراچی کی ایک مقامی عدالت نے اس قتل کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے نہ پیش ہونے پر سکندر جتوئی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کررکھے تھے۔
گرفتاری سے پہلے سکندر جتوئی اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر بتایا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے اور ان سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
سینیئر وکیل حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ان کے موکل اس سلسلے میں عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو واپس پاکستان آنے کے لیے دباؤ بھی ڈالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سکندر جتوئی اپنے آپ کو عدالت کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جسے تسلیم کیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اس بینچ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سکندر جتوئی سے متعلق عدالت اعظمیٰ نے کوئی احکامات جاری نہیں کیے اس لیے وہ متعلقہ ادارے سے رجوع کریں۔
حفیظ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کے بقول پولیس ان کے اہل خانہ اور بالخصوص خواتین کو ہراساں بھی کر رہی ہے۔ جس پر سندھ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شاہد حیات نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ عدالت کے حکم پر پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے صرف چھاپے مارے ہیں۔
’’ان چھاپوں کی وجہ سے آج یہاں ہیں ورنہ ہم ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔‘‘
شاہد حیات نے عدالت کو بتایا کہ انٹر پول کی جانب سے اس قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی دبئی میں موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس کی گرفتاری اب تک عمل میں نہیں آئی۔
انہوں نے بتایا کہ دبئی سے حاصل معلومات کے مطابق شاہ رخ جتوئی 27 دسمبر سے وہاں پر ہے۔ ’’تحقیقات ہورہی ہیں کہ شاہ رخ کس طرح ملک سے باہر گیا۔‘‘
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ شارخ جتوئی کا نام دبئی میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے اور پاکستانی انٹر پول اور وہاں کے دیگر حکام سے مل کر گرفتاری کی کوششیں کررہے ہیں۔
شاہد حیات تاہم عدالت کو شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کی کوئی حتمی تاریخ دینے سے قاصر رہے۔ سماعت 16 جنوری تک ملتوی ہوگئی ہے۔
دسمبر میں ہونے والے قتل کی اس واردات کے کئی روز تک ملزمان کی عدم گرفتاری پر انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور ذرائع ابلاغ میں شدید مذمت کی گئی جبکہ شاہ زیب کے اہل خانہ، دوستوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کراچی میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
ان احتجاج کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔
20 سالہ شاہ زیب خان کے قتل میں نامزد ملزمان کا تعلق سندھ کے بااثر اور دولت مند خاندانوں سے ہے اور اس میں واقعے میں ملوث چار میں تین ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں۔ زیر حراست ملزمان میں سراج تالپور اور ان کے دو محافظ ہیں۔
کراچی کی ایک مقامی عدالت نے اس قتل کیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے نہ پیش ہونے پر سکندر جتوئی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کررکھے تھے۔
گرفتاری سے پہلے سکندر جتوئی اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت اعظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش ہو کر بتایا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہونے اور ان سے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
سینیئر وکیل حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ان کے موکل اس سلسلے میں عدالت کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹے کو واپس پاکستان آنے کے لیے دباؤ بھی ڈالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سکندر جتوئی اپنے آپ کو عدالت کے سپرد کرنا چاہتے ہیں جسے تسلیم کیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں اس بینچ نے یہ درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سکندر جتوئی سے متعلق عدالت اعظمیٰ نے کوئی احکامات جاری نہیں کیے اس لیے وہ متعلقہ ادارے سے رجوع کریں۔
حفیظ پیرزادہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کے بقول پولیس ان کے اہل خانہ اور بالخصوص خواتین کو ہراساں بھی کر رہی ہے۔ جس پر سندھ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شاہد حیات نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ عدالت کے حکم پر پولیس نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے صرف چھاپے مارے ہیں۔
’’ان چھاپوں کی وجہ سے آج یہاں ہیں ورنہ ہم ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔‘‘
شاہد حیات نے عدالت کو بتایا کہ انٹر پول کی جانب سے اس قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی دبئی میں موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس کی گرفتاری اب تک عمل میں نہیں آئی۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ شارخ جتوئی کا نام دبئی میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے اور پاکستانی انٹر پول اور وہاں کے دیگر حکام سے مل کر گرفتاری کی کوششیں کررہے ہیں۔
شاہد حیات تاہم عدالت کو شاہ رخ جتوئی کی گرفتاری کی کوئی حتمی تاریخ دینے سے قاصر رہے۔ سماعت 16 جنوری تک ملتوی ہوگئی ہے۔
دسمبر میں ہونے والے قتل کی اس واردات کے کئی روز تک ملزمان کی عدم گرفتاری پر انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس اور ذرائع ابلاغ میں شدید مذمت کی گئی جبکہ شاہ زیب کے اہل خانہ، دوستوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کراچی میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
ان احتجاج کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور پولیس کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔
20 سالہ شاہ زیب خان کے قتل میں نامزد ملزمان کا تعلق سندھ کے بااثر اور دولت مند خاندانوں سے ہے اور اس میں واقعے میں ملوث چار میں تین ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں۔ زیر حراست ملزمان میں سراج تالپور اور ان کے دو محافظ ہیں۔