پاکستان نے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد کے خطے کے تازہ دورے کے دوران پیر کو دو طالبان عہدیداروں کو رہا کردیا ہے ۔
پاکستان کے اس اقدام کو امریکہ کی طرف سے طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
پیر کو رہا کیے جانے والے طالبان رہنماؤں میں سے ایک کا نام عبدالصمد ثانی ہے جو طالبان کے دورِ اقتدار میں افغانستان کے مرکزی بینک کے گورنر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
عبدالصمد ثانی کا نام دہشت گردوں کی امریکی فہرست میں شامل تھا۔ رہا ہونے والے دوسرے رہنما کی شناخت جونیئر طالبان کمانڈر صلاح الدین کے طور پر ہوئی ہے۔
دونوں رہنماؤں کی رہائی کی تصدیق دو طالبان عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کے دوران کی ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے تاحال اس دعوے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے خطے کے اپنے حالیہ دورے کے دوران پاکستان، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور قطر جائیں گے جہاں طالبان کا سیاسی دفتر بھی واقع ہے۔
طالبان کو کہنا ہے کہ ان کے وفد نے گزشتہ ماہ قطر میں خیل زاد سے ملاقات کی تھی۔
خلیل زاد نے خطے کا تازہ دورہ جمعرات کو شروع کیا ہے اور وہ 20 نومبر کو واپس واشنگٹن پہنچیں گے۔
یا د رہے کہ خلیل زاد کے خطے کے گزشتہ دورے کے دوران پاکستان نے طالبان کے سینئر رہنما عبدالغنی برادر کو رہا کیا تھا جنہیں 2010ء میں کراچی میں پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے ایک مشترکہ کارروائی کے دوران گرفتار کیا تھا۔
طالبان ایک عرصے سے ملا برادر کی رہائی کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔
تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے گزشتہ ہفتے دفترِ خارجہ میں معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ملا برادار کی رہائی امریکہ کی درخواست پر عمل میں آئی جس کا مقصد افغان امن تنازع کے سیاسی حل کی مشترکہ کوششیں آگے بڑھانا ہے۔
پاکستان کی طرف سے دو مزید طالبان رہنماؤں کر رہا کرنے کے اطلاعات ایسے وقت سامنے آئی ہیں جب افغانستان کے تنازع کا پرامن حل تلاش کرنے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے اور انہیں کوششوں کے سلسلے میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد ایک بار پھر خطے کے دورے پر ہیں۔
طالبان ایک عرصے سے کابل حکومت کے بجائے امریکہ کے ساتھ براہِ راست بات چیت کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
دوسری طرف افغان حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان امن و مصالحت کے لیے بات چیت افغان حکومت کی سرپرستی اور نگرانی میں ہونی چاہیے۔ صدر اشرف غنی کی حکومت متعدد بار طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کر چکی ہے لیکن طالبان اس پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کرتے آرہے ہیں۔