پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے جمعہ کو سینٹ میں ایک تحریر ی بیان میں بتایا ہے کہ ملک میں گذشتہ تین سالوں کے دوران 2,488 بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں مجموعی طور پر 3,169 افراد ہلاک اور 9,479 زخمی ہوئے۔
2008ء سے 2010ء کے درمیان تشد د کے یہ واقعات ملک کے چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہوئے جب کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے درست اعدادوشماردستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس میں وہ شامل نہیں ہیں۔
بیان کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا ہ میں ہونے والے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1,524 رہی جب کہ صوبہ بلوچستان میں 760،صوبہ پنجاب میں 605 اور صوبہ سندھ میں 134 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران 606مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کتنے مشتبہ شدت پسندوں کو عدالتوں سے سزائیں سنائی گئیں۔
پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری عالمی جنگ میں اُس نے کسی بھی دوسر ے ملک سے ناصرف سب سے زیادہ جانی قربانیاں دی ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔
دریں اثناء پاکستان نے اُس امریکی رپورٹ کو بلاجواز قرار دے کر مستر د کر دیا جس میں کہا گیاتھا کہ طالبان عسکریت پسندوں کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مضبوط حکمت عملی موجود نہیں ہے ۔
ایک غیر سرکاری تنظیم ’Individualland‘ نے بھی حال ہی میں پاکستان میں پچھلے 10سالوں میں انسداد دہشت گردی کی مہم کا جائزہ پیش کیا ہے جس کے مطابق 2003ء سے آج تک شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں پاکستان میں مجموعی طور پر 32,500سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 9,410 عام شہری اور 3,326 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔ جب کہ ہلاک ہونے والے باقی افراد یعنی دہشت گرد اور عسکریت پسند تھے۔