وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’’غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات کرنا وقت کا تقاضا ہے اور ایسا کیا جائے گا‘‘۔
اسلام آباد —
پاکستان کی وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس نے وزارت داخلہ کی طرف سے ’’نئی تیار کردہ‘‘ داخلی سلامتی کی پالیسی کے مسودے کی منظوری آئندہ اجلاس تک موخر کر دی۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شدت پسندوں کے دو جان لیوا حملوں کے بعد پیر کو ہونے والے اجلاس میں ملک کی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس بارے میں اراکین کو بریفنگ دی۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور قانون کو ہدایت دی کہ وہ ’’دفاع پاکستان آرڈینس‘‘ کو پارلیمان سے باقاعدہ منظور کروا کر اس کے جلد نفاذ کو یقینی بنائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’غیر معمولی صورتحال میں غیر معمولی اقدامات کرنا وقت کا تقاضا ہے اور ایسا کیا جائے گا‘‘۔
مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کے فعال کردار پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام اور استغاثہ کا تقرر فوری کیا جائے۔
وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے بقول کابینہ نے داخلی سلامتی کی پالیسی کی ’’اصولی طور‘‘ پر منظوری دے دی ہے تاہم آئندہ چند دنوں میں ہونے والے اجلاس میں اس پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔
تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور منشیات میں زیر بحث ہے اور کئی کمیٹی اراکین کا کہنا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کے منافی بعض شقیں موجود ہیں جنھیں دور کرنا ضروری ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن نواب یوسف تالپور کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہنا تھا۔
’’اس میں خصوصی عدالتیں بنیں گی۔ پھر آپ نے (قانون نافذ کرنے والے اداروں) کو (گولی مارنے) کا حق دے دیا اور کسی کے گھر وہ گھس سکتے ہیں۔ اس سب کو دیکھنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے کسی حد تک تو امن و امان کے سلسلے میں ہم جا سکتے ہیں مگر اس حد تک بھی نہیں کہ انسانی حقوق ہی بالکل پامال ہو جائیں۔‘‘
وزارت داخلہ کے عہدیدار متنبہ کر چکے ہیں کہ تحفظ پاکستان اور انسداد دہشت گردی آرڈینسز کی پارلیمان کی آئندہ ماہ کے اوائل تک منظوری نا ہونے کی صورت میں پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کے مطابق مجوزہ داخلی سلامتی کی پالیسی میں ملک کے 26 خفیہ اداروں کے درمیان روابط اور معلومات کے تبادلے کے نظام کو فعال اور موثر بنانے کے لیے ایک جوائنٹ انٹلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا اور ایک ’’ریپڈ رسپانس‘‘ فورس بھی بنائی جائے گی جس کا مقصد دہشت گردی کے کسی عمل کے خلاف فوری کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی میں اس بات کا بھی تعین کیا گیا ہے کہ کس صورتحال میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں اور کب ان کے خلاف کارروائی ضروری ہوگی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اس متعلق پائے جانے والے معاشرتی سطح پر ابہام کا دور ہونا لازمی ہے۔ پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے لاہور یورنیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں شعبہ سوشل سائنسس کے پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں۔
’’شدت پسندی کو جائز قرار دینا یہ بند ہو جانا چاہیئے۔ کوئی بھی مقصد ہو اس کے لیے تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ریاست اس بارے میں واضح موقف اختیار کر لے تو پھر وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اس چیلنج، خطرے کو ختم ہونا چاہیئے۔‘‘
نواز شریف حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں خونریز دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات ان کی اولین ترجیح ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی طرف سے اتوار کو سیکورٹی فورسز پر ملک کے شمال مغرب میں ایک بم حملے کے بعد حکومت سے مشروط مذاکرات کی آمادگی کا اعلان کیا گیا۔ اس حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت سیکورٹی اہلکاروں کی تھی۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شدت پسندوں کے دو جان لیوا حملوں کے بعد پیر کو ہونے والے اجلاس میں ملک کی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس بارے میں اراکین کو بریفنگ دی۔
مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام ریاستی اداروں کے فعال کردار پر زور دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کا قیام اور استغاثہ کا تقرر فوری کیا جائے۔
وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کے بقول کابینہ نے داخلی سلامتی کی پالیسی کی ’’اصولی طور‘‘ پر منظوری دے دی ہے تاہم آئندہ چند دنوں میں ہونے والے اجلاس میں اس پر تفصیلی بحث کی جائے گی۔
تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ اور منشیات میں زیر بحث ہے اور کئی کمیٹی اراکین کا کہنا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کے منافی بعض شقیں موجود ہیں جنھیں دور کرنا ضروری ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے کمیٹی کے رکن نواب یوسف تالپور کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں کہنا تھا۔
’’اس میں خصوصی عدالتیں بنیں گی۔ پھر آپ نے (قانون نافذ کرنے والے اداروں) کو (گولی مارنے) کا حق دے دیا اور کسی کے گھر وہ گھس سکتے ہیں۔ اس سب کو دیکھنا پڑے گا۔ ٹھیک ہے کسی حد تک تو امن و امان کے سلسلے میں ہم جا سکتے ہیں مگر اس حد تک بھی نہیں کہ انسانی حقوق ہی بالکل پامال ہو جائیں۔‘‘
وزارت داخلہ کے عہدیدار متنبہ کر چکے ہیں کہ تحفظ پاکستان اور انسداد دہشت گردی آرڈینسز کی پارلیمان کی آئندہ ماہ کے اوائل تک منظوری نا ہونے کی صورت میں پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
وزیر داخلہ کے مطابق مجوزہ داخلی سلامتی کی پالیسی میں ملک کے 26 خفیہ اداروں کے درمیان روابط اور معلومات کے تبادلے کے نظام کو فعال اور موثر بنانے کے لیے ایک جوائنٹ انٹلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا اور ایک ’’ریپڈ رسپانس‘‘ فورس بھی بنائی جائے گی جس کا مقصد دہشت گردی کے کسی عمل کے خلاف فوری کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پالیسی میں اس بات کا بھی تعین کیا گیا ہے کہ کس صورتحال میں شدت پسندوں سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں اور کب ان کے خلاف کارروائی ضروری ہوگی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے اس متعلق پائے جانے والے معاشرتی سطح پر ابہام کا دور ہونا لازمی ہے۔ پاکستان کے معروف تعلیمی ادارے لاہور یورنیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں شعبہ سوشل سائنسس کے پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں۔
’’شدت پسندی کو جائز قرار دینا یہ بند ہو جانا چاہیئے۔ کوئی بھی مقصد ہو اس کے لیے تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ریاست اس بارے میں واضح موقف اختیار کر لے تو پھر وہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ اس چیلنج، خطرے کو ختم ہونا چاہیئے۔‘‘
نواز شریف حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں خونریز دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے شدت پسندوں سے مذاکرات ان کی اولین ترجیح ہے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی طرف سے اتوار کو سیکورٹی فورسز پر ملک کے شمال مغرب میں ایک بم حملے کے بعد حکومت سے مشروط مذاکرات کی آمادگی کا اعلان کیا گیا۔ اس حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت سیکورٹی اہلکاروں کی تھی۔