اسلام آباد —
پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے قیام کے بعد ہی سے اس میں شامل رہنماء یہ کہتے آئے ہیں کہ دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے داخلی سلامتی کی نئی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ تاحال اس مجوزہ داخلی پالیسی کے مکمل خد و خال سامنے نہیں آئے ہیں لیکن پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا ہے کہ نئی پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جسے جلد ہی منظوری کے لیے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھیج دیا جائے گا۔
حکام کے مطابق داخلی سلامتی کی مجوزہ پالیسی میں انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی فورس کی تشکیل کے علاوہ اہم تنصیبات کی حفاظت اور فوری ردعمل کے لیے لائح عمل بھی شامل ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق نئی پالیسی میں ملک میں قیام امن کے لیے طالبان سے مجوزہ مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی بھی شامل ہو گی۔
سیاسی حلقوں کے علاوہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تمام اداروں اور سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے بنائی گئی پالیسی کی مدد ہی سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’’اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہم جس مسئلے (دہشت گردی) کا سامنا کر رہے ہیں اُس کے لیے ایک متفقہ پالیسی ہونی چاہیئے۔ جس میں ریاست کے تمام ادارے پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیاں، فوج کے علاوہ سیاست دان بھی شامل ہوں اور اُن تمام کو پتہ ہو کہ اس پر ہماری پالیسی کیا ہے ... جب تک وہ پالیسی وضع نا ہو تو ہر ادارہ اپنی اپنی سمجھ کہ مطابق کام کرتا رہے گا۔‘‘
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ داخلی سلامتی کی نئی پالیسی کی کامیابی کے لیے وقت درکار ہو گا اور بوقت ضرورت حکمت عملی میں تبدیلی بھی کرنا ہو گی۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی کو داخلی سلامتی کی پالیسی سے الگ رکھنا چاہیئے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت مذاکرات کے عمل میں حالیہ رکاوٹ کے باوجود دہشت گردی کے مسئلے کا حل بات چیت ہی کے ذریعے چاہتی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے باعث مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں تاحال حکومت یا طالبان کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم بعض جماعتوں خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہہ چکے ہیں حکومت کو اس بارے میں اپنا موقف جلد واضح کرنا چاہیئے۔
اگرچہ تاحال اس مجوزہ داخلی پالیسی کے مکمل خد و خال سامنے نہیں آئے ہیں لیکن پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا ہے کہ نئی پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جسے جلد ہی منظوری کے لیے وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھیج دیا جائے گا۔
حکام کے مطابق داخلی سلامتی کی مجوزہ پالیسی میں انسداد دہشت گردی کے لیے خصوصی فورس کی تشکیل کے علاوہ اہم تنصیبات کی حفاظت اور فوری ردعمل کے لیے لائح عمل بھی شامل ہے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق نئی پالیسی میں ملک میں قیام امن کے لیے طالبان سے مجوزہ مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی بھی شامل ہو گی۔
سیاسی حلقوں کے علاوہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
سابق سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تمام اداروں اور سیاسی قیادت کے اتفاق رائے سے بنائی گئی پالیسی کی مدد ہی سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
’’اس میں دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہم جس مسئلے (دہشت گردی) کا سامنا کر رہے ہیں اُس کے لیے ایک متفقہ پالیسی ہونی چاہیئے۔ جس میں ریاست کے تمام ادارے پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیاں، فوج کے علاوہ سیاست دان بھی شامل ہوں اور اُن تمام کو پتہ ہو کہ اس پر ہماری پالیسی کیا ہے ... جب تک وہ پالیسی وضع نا ہو تو ہر ادارہ اپنی اپنی سمجھ کہ مطابق کام کرتا رہے گا۔‘‘
تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ داخلی سلامتی کی نئی پالیسی کی کامیابی کے لیے وقت درکار ہو گا اور بوقت ضرورت حکمت عملی میں تبدیلی بھی کرنا ہو گی۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے بارے میں حکمت عملی کو داخلی سلامتی کی پالیسی سے الگ رکھنا چاہیئے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ حکومت مذاکرات کے عمل میں حالیہ رکاوٹ کے باوجود دہشت گردی کے مسئلے کا حل بات چیت ہی کے ذریعے چاہتی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں یکم نومبر کو مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے باعث مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں تاحال حکومت یا طالبان کی طرف سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا ہے تاہم بعض جماعتوں خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کہہ چکے ہیں حکومت کو اس بارے میں اپنا موقف جلد واضح کرنا چاہیئے۔