پاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کے افغانستان کی مختلف جیلوں میں موجود پاکستان کے شہریوں کی قید میں کمی اور ان کی رہائی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
افغان حکومت کے فیصلے کے مطابق پاکستان کے وہ شہری جن کی قید کی سزا میں ایک ماہ کا وقت باقی ہے، فوری طور پر رہا کیا جائے گا۔
رپورٹس کے مطابق جن قیدیوں کے پاس جرمانے کی ادائیگی کے لیے رقم نہیں ہے ان کی رہائی بھی اس صدارتی اعلان میں شامل ہے۔
پاکستان کے افغانستان کے لیے نمائندۂ خصوصی محمد صادق خان اور کابل میں سفیر محمد منصور خان نے علیحدہ علیحدہ ٹوئٹس میں اس فیصلے پر صدر اشرف غنی کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
افغان حکومت اور کابل میں پاکستان کے سفارت خانے افغانستان کی جیلوں میں قید پاکستانیوں کی تعداد یا دیگر تفصیلات جاری نہیں کیں۔
اس حوالے سے افغان صحافی شہریار ننگیال نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ اعلان کے بعد رعایت پانے والے پاکستانی قیدیوں کی تعداد لگ بھگ 700 ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے اعلان پر انسانی حقوق کے کارکن شکیل وحید اللہ خان کہتے ہیں کہ اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتر ہوں گے۔ بلکہ اس سے خطے میں قیامِ امن میں بھی مدد ملے گی۔
سینئر صحافی سمیع یوسف زئی نے یہ تعداد سینکڑوں میں ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔
سمیع یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زیادہ تر پاکستانی شہری دہشت گردی اور تشدد کے الزامات میں قید ہیں۔
کئی افراد افغان تاجروں اور املاک کے مالکان کے ساتھ مالی تنازعات کے بعد گرفتار ہوئے ہیں۔ ان گرفتار افراد میں ایک بڑی تعداد مزدروں کی بھی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مختلف جرائم میں عدالتوں سے سزا کی بنیاد پر پاکستان کی جیلوں میں قید ہیں۔
طالبان حکومت نے 1998 میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل اور خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قید 550 سے زائد افغان باشندوں کی موجودگی کی نشاندہی کی تھی۔ اس وقت طالبان حکومت نے قیدیوں کے تبادلے کے لیے تجویز بھی دی تھیں۔ البتہ اس وقت پاکستان کی جیلوں میں قید افغان باشندوں کی مصدقہ تعداد دستیاب نہیں ہے۔
افغانستان کی جیلوں میں عام پاکستانی شہریوں کے علاوہ مبینہ عسکریت پسند بھی قید میں ہیں۔ ان میں تحریک طالبان پاکستان کا نائب سربراہ مولوی فقیر محمد اور داعش کے اسلم فاروقی شامل ہیں۔