رسائی کے لنکس

ہمیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے مستقبل میں اچھے تعلقات کی توقع ہے، سابق افغان صدر حامد کرزئی سے خصوصی انٹرویو


سابق افغان صدر حامد کرزئی کا وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو
سابق افغان صدر حامد کرزئی کا وائس آف امریکہ سے خصوصی انٹرویو

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے قیامِ امن ایک چیز ہے۔ جب کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہمارے متعلق سمجھوتہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

حامد کرزئی کے مطابق پاکستانی بھائی اور بہنوں کے لیے ہمارے دل میں پیار ہے۔ لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے میں امید کروں گا کہ وہ مستقبل میں اچھے تعلقات قائم کریں۔ ہمارے ملک کے خلاف شدت پسندی کو استعمال نہ کریں۔

وائس آف امریکہ کو خصوصی انٹرویو میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ سویت یونین کے واپس جانے کے بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسی طرح کے معاہدوں کی وجہ سے آج ہم اس اذیت میں ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ درست ہے؟ کے جواب میں صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ معاہدے میں افغانستان میں جاری تنازعے اور قتل و غارت گری کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ تو یہ بہت اچھا ہے۔ ہم آج نہیں بلکہ کل بھی اسے ختم کرنا چاہتے تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس عمل میں امریکہ کی نیت افغانستان میں دیرپا امن اور ایک مستحکم افغانستان کی ہو۔

سابق افغان صدر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ہمسائیوں کے ساتھ دوستی رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم امریکہ کے بھی دوست رہنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان مہذب اور دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں۔ تاہم وہ یہ نہیں چاہتے کہ یہ تعلقات شدت پسندی کی درآمد پر مبنی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ جو امن عمل لا رہا ہے وہ پاکستان کے ساتھ قریبی رابطہ کاری کے ساتھ لا رہا ہے۔ اور انہیں پاکستان کے کردار کا ادراک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے قیامِ امن ایک چیز ہے اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان ہمارے متعلق سمجھوتہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔ ہم یہ نہیں چاہتے اور ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سویت یونین کے واپس جانے کے بعد، امریکہ اور پاکستان کے درمیان اسی طرح کے معاہدوں کی وجہ سے آج ہم اس اذیت میں ہیں۔

اس سوال پر کہ دیگر علاقائی ممالک کا اس عمل میں کیا کردار ہو گا؟ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت امید ہے کہ ہمارے تمام ہمسائے افغان امن عمل میں حصہ لیں گے اور اس کی حمایت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے تمام ہمسائے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اور ہمسایہ ممالک اور روس، چین اور بھارت جیسی بڑی قوتیں مل کر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ وہ شفافیت چاہتے ہیں اور پس منظر میں کوئی سمجھوتے یا اسکیمیں نہیں چاہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان دیگر ممالک کے درمیان مفادات کے ٹکراؤ کا مقام ہو اور علاقائی ممالک کے درمیان رقابت اور مسابقت کا مقام ہو۔

انہوں نے کہا کہ اسی وجہ سے انہیں تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔ یہ کوئی افغان جنگ نہیں ہے اور نہ ہی افغان مفادات کے لیے جنگ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک کے وسیع تر مقاصد کے لیے افغان ہلاک ہو رہے ہیں۔

ایسے میں جب کہ طالبان اور افغان حکومت کے وفود قطر کے شہر دوحہ میں ملک کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کر رہے ہیں، سابق افغان صدر حامد کرزئی نے امریکی انتخابات کے مذاکرات پر ممکنہ اثرات، مقام اور مذاکرات کی کامیابی پر بات کی۔​

اس سوال پر کہ امریکی انتخابات کے نتائج کے افغان امن عمل پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک نتائج سے جاری امن عمل پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی رفتار میں فرق آئے یا طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے۔ لیکن امریکی افواج میں کمی اور افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ کے مجموعی مقاصد پر کچھ اثر نہیں ہو گا۔

اس سوال پر کہ کیا ان کی سیاسی بصیرت امن عمل کو کامیاب ہوتا دیکھ رہی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کی جانب سے شروع کیے گئے اس عمل کے ساتھ ہیں اور ہمیں بہت امید ہے کہ امریکہ اس عمل کو شفافیت سے اور ان تمام قوتوں کی مشاورت سے انجام دے گا جن کے افغانستان اور خطے سے مفادات وابستہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اچھے سمجھوتے کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کے لیے ہمارے دل میں پیار ہے۔ لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے میں امید کروں گا کہ وہ مستقبل میں اچھے تعلقات قائم کرے اور ہمارے ملک کے خلاف شدت پسندی کو استعمال نہ کرے۔

جب پوچھا گیا کہ وہ مستقبل میں اپنا کیا کردار دیکھتے ہیں؟ اس پر سابق افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ میں اپنے آپ کو بطور ایک شہری کے دیکھتا ہوں۔ جو افغانستان میں قیام امن اور اسے ایک باوقار زندگی کی جانب لوٹتا ہوا دیکھنے کے لیے وہ سب کچھ کرے جو وہ کر سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG