’اگر میں صدر بن گیا تو سب سے پہلے کرپشن کو ’منی مائز‘ اور اُس کے بعد ’لیگل لائز‘ کردوں گا۔ اس کے لئے، میرے پاس بہت ہی کارگر نسخے ہیں‘: ڈاکٹر امبر شہزادہ
پاکستان میں چند روز بعد ہونے والے صدارتی انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں میں جہاں بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے نامور لوگ شامل ہیں، وہیں کچھ نام ایسے بھی ہیں جو غیر معروف مگر انتہائی دلچسپ ہیں۔ ہو سکتا ہے پہلی نظر میں آپ کو یہ لوگ کچھ مختلف لگیں۔ لیکن، ان کی باتیں اور جذبہ سچا اور بہت معصومانہ ہے۔
مثلاً ’آپ جناب سرکار پارٹی‘ کے سربراہ، نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’آپ جناب سرکار پارٹی‘ نا صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے، بلکہ ایک اور دلچسپ پہلو یہ کہ انہوں نے اب سے پہلے بھی تین مرتبہ صدارتی انتخابات کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے سے لاہور سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ نے بتایا کہ اُن کا تعلق ’کھٹمنڈو‘ کے سابق ’شاہی خاندان‘ سے ہے۔ ان کے آباوٴاجداد نے پاکستان بننے کے وقت ہجرت کی تھی۔
نواب امبر کا کہنا تھا کہ اُن کا آبائی پیشہ زراعت اور تجارت ہے۔ وہ اب بھی لاہور میں ایک ’آل ٹائپ کنسلٹنسی فرم‘ چلا رہے ہیں۔ نواب امبر شہزادہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس سے قبل وہ پارلیمانی اور سینیٹ کے انتخابات کے لئے بھی کھڑے ہو چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں امبر شہزادہ کا کہنا تھا کہ ان کے کاغذٓاتِ نامزدگی ابھی مسترد نہیں ہوئے۔ اُن کی چانچ پڑتال ہورہی ہے۔ امبر نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں اب بھی کہہ رہے ہیں کہ صرف وہ ہی ’سنجیدہ‘ صدارتی امیدوار ہیں ،’جبکہ، باقی سب شرارتی امیدوار ہیں‘۔
اپنے تائید و تجویز کنندہ کے حوالے سے امبر کا کہنا ہے کہ ان کے تائید و تجویز کنندہ ان سے بھاری بھاری افطاریاں کھا کرغائب ہوگئے ہیں۔ اُن کے بقول، ’اب فون کرتا ہوں تو اپنے آپ کو کوئی شہر سے باہر بتاتا ہے تو کوئی کہیں اور۔ اگلی بار صدارتی انتخابات کے کاغذات پر ان سے پہلے سے سائن کرا کر رکھوں گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو سب سے پہلے کرپشن کو ’منی مائز‘ اور اس کے بعد ’لیگل لائز‘ کردیں گے۔ اس کے لئے ان کے پاس بہت ہی کارگر نسخے ہیں۔
محکمہٴ انکم ٹیکس پشاور کے ملازم منیر خان شیرازی
پشاور میں محکمہ انکم ٹیکس میں بطور کلرک اپنے فرائض انجام دینے والے منیر خان شیرازی نے بھی صدارتی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ کاغذات جمع کرا چکے ہیں۔ لیکن، ہر بار ہی ان کے کاغذات مسترد کر دیئے گئے۔
منیر خان شیرازی ایک سابق صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس قانون کے تحت ’سرکاری ملازم‘ کو پہلے صدارتی انتخابات میں لایا گیا اسی قانون کے تحت میں بھی صدر بنوں گا۔ منیر کا کہنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی صدارتی انتخاب لڑنا ان کا حق ہے۔
لاہورکے کتب فروش
لاہور ہی کے ایک اور شہری جو پیشے کے اعتبار سے کتب فروش ہیں انہوں نے بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنے کاغذٓات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صدر بن کر تین کام کریں گے: تمام عوام کو صاف پانی فراہم کریں گے، ملک کو جاگیرداروں سے نجات دلائیں گے۔ ہر گھر کے باہر ایک پھلدار پودا لگوائیں گے، تاکہ ہر شہری کو پھل اپنے گھر کی دہلیز پر ملے اور جاگیرداروں سے نجات حاصل ہو۔ تیسرے وہ پیٹرول کی قیمتیں کنٹرول کرکے مہنگائی کو ختم کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ شوقیہ صدارتی امیدوار نہیں بنے، بلکہ وہ ایک ’ویژن‘ لے کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
مثلاً ’آپ جناب سرکار پارٹی‘ کے سربراہ، نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’آپ جناب سرکار پارٹی‘ نا صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے، بلکہ ایک اور دلچسپ پہلو یہ کہ انہوں نے اب سے پہلے بھی تین مرتبہ صدارتی انتخابات کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔
جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے سے لاہور سے فون پر بات چیت کرتے ہوئے نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ نے بتایا کہ اُن کا تعلق ’کھٹمنڈو‘ کے سابق ’شاہی خاندان‘ سے ہے۔ ان کے آباوٴاجداد نے پاکستان بننے کے وقت ہجرت کی تھی۔
نواب امبر کا کہنا تھا کہ اُن کا آبائی پیشہ زراعت اور تجارت ہے۔ وہ اب بھی لاہور میں ایک ’آل ٹائپ کنسلٹنسی فرم‘ چلا رہے ہیں۔ نواب امبر شہزادہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ ہومیوپیتھک ڈاکٹر بھی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس سے قبل وہ پارلیمانی اور سینیٹ کے انتخابات کے لئے بھی کھڑے ہو چکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں امبر شہزادہ کا کہنا تھا کہ ان کے کاغذٓاتِ نامزدگی ابھی مسترد نہیں ہوئے۔ اُن کی چانچ پڑتال ہورہی ہے۔ امبر نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں اب بھی کہہ رہے ہیں کہ صرف وہ ہی ’سنجیدہ‘ صدارتی امیدوار ہیں ،’جبکہ، باقی سب شرارتی امیدوار ہیں‘۔
اپنے تائید و تجویز کنندہ کے حوالے سے امبر کا کہنا ہے کہ ان کے تائید و تجویز کنندہ ان سے بھاری بھاری افطاریاں کھا کرغائب ہوگئے ہیں۔ اُن کے بقول، ’اب فون کرتا ہوں تو اپنے آپ کو کوئی شہر سے باہر بتاتا ہے تو کوئی کہیں اور۔ اگلی بار صدارتی انتخابات کے کاغذات پر ان سے پہلے سے سائن کرا کر رکھوں گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو سب سے پہلے کرپشن کو ’منی مائز‘ اور اس کے بعد ’لیگل لائز‘ کردیں گے۔ اس کے لئے ان کے پاس بہت ہی کارگر نسخے ہیں۔
محکمہٴ انکم ٹیکس پشاور کے ملازم منیر خان شیرازی
پشاور میں محکمہ انکم ٹیکس میں بطور کلرک اپنے فرائض انجام دینے والے منیر خان شیرازی نے بھی صدارتی انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی دو مرتبہ کاغذات جمع کرا چکے ہیں۔ لیکن، ہر بار ہی ان کے کاغذات مسترد کر دیئے گئے۔
منیر خان شیرازی ایک سابق صدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس قانون کے تحت ’سرکاری ملازم‘ کو پہلے صدارتی انتخابات میں لایا گیا اسی قانون کے تحت میں بھی صدر بنوں گا۔ منیر کا کہنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی صدارتی انتخاب لڑنا ان کا حق ہے۔
لاہورکے کتب فروش
لاہور ہی کے ایک اور شہری جو پیشے کے اعتبار سے کتب فروش ہیں انہوں نے بھی صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنے کاغذٓات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ صدر بن کر تین کام کریں گے: تمام عوام کو صاف پانی فراہم کریں گے، ملک کو جاگیرداروں سے نجات دلائیں گے۔ ہر گھر کے باہر ایک پھلدار پودا لگوائیں گے، تاکہ ہر شہری کو پھل اپنے گھر کی دہلیز پر ملے اور جاگیرداروں سے نجات حاصل ہو۔ تیسرے وہ پیٹرول کی قیمتیں کنٹرول کرکے مہنگائی کو ختم کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ شوقیہ صدارتی امیدوار نہیں بنے، بلکہ وہ ایک ’ویژن‘ لے کر تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔