|
کراچی -- پاکستان کی قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے صرف 10 ارب روپے کی بولی پر بعض حلقوں کی جانب سے حیرانگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اتنی کم بولی لگنا حکومت کے لیے سبکی کا باعث بنا ہے۔
بولی لگانے والے گروپ نے اس میں مزید اضافے سے بھی انکار کردیا ہے۔ حکومت نے بولی کی کم سے کم رقم 85 ارب روپے رکھی تھی۔
ماہرین معیشت اور ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی اس قدر کم قیمت لگنا حکومت کے لیے ایک بڑی پسپائی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ کار حکومت پر اعتماد نہیں کر رہے۔
ایوی ایشن انڈسٹری کے ماہر طاہر عمران کہتے ہیں کہ ماضی میں ریکوڈیک میں ہونے والی سرمایہ کاری اور اسٹیل ملز کی نجکاری کو عدالتوں نے رد کر دیا تھا۔
اُن کے بقول یہی نہیں بلکہ پی آئی اے میں تمام تر ضابطے کی کارروائی کے بعد سی ای او کی تعیناتی کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔
طاہر عمران کہتے ہیں کہ پی آئی اے کے معاملات میں حکومتی مداخلت کے علاوہ فوج اور عدلیہ بھی مداخلت کرتی ہے تو حکومت کی نجکاری کی پالیسیز پر سرمایہ کاروں کو اعتماد کیسے آ سکتا ہے؟
طاہر عمران کہتے ہیں کہ اس قدر خراب تجارتی اور معاشی حالات میں کوئی بھی سرمایہ کار یہاں پیسہ لگانے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
طاہر عمران کے مطابق پی آئی اے میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کے خدشات اس ماحول میں درست معلوم ہوتے ہیں، انہیں جن یقین دہانیوں کی ضرورت ہے وہ حکومت نہیں دے پائی۔
اُن کے بقول پی آئی اے کے مالی حالات بہتر کرنا اور اسے منافع بخش ادارہ بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس سے متعلق سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موجود ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پی آئی اے کو بہتر کرنے کے لیے اہل سی ای او لگایا جائے۔ جو ایک قابل ٹیم بنا کر پی آئی اے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔
نجکاری کمیشن میں خامیاں کم بولی لگنے کی وجہ؟
دوسری جانب بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سابق چیئرمین اور وزیر مملکت ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری میں اصل خرابی بیورو کریسی کی قابلیت میں کمی کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نجکاری کمیشن میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی کمی صاف نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجکاری کمیشن کے لوگ غیر ملکیوں کو تو درکنار اپنے ہی لوگوں کو قائل نہیں کر سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے مؤقف میں بھی ابہام ہے۔ لہذٰا نیم دلانہ کوششوں کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔
طاہر عمران بھی اس خیال سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نجکاری کے عمل میں حکومت کی توقعات سے کم بولی اس لیے لگی ہے کہ حکومت کی جانب سے اس بارے میں کوئی خاص حکمتِ عملی اور کوشش ہی نہیں کی گئی۔
اُن کے بقول کئی دہائیوں سے کوئی بڑی انویسٹمنٹ ملک میں نہیں آ سکی کیوں کہ سرمایہ کاروں کو پاکستان میں کوئی کشش نظر نہیں آتی۔
ایوی ایشن ماہرین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے اربوں روپوں کے اثاثوں کے علاوہ بین الاقوامی ایئرپورٹس پر لینڈنگ رائٹس اور سلاٹس بھی کئی سو ملین ڈالرز کی ہیں۔
لیکن جب حکومت اس کو بیچنے کے لیے میدان میں اتری تو جمعرات کی شام ہونے والی بولی میں اسے محض 10 ارب روپے کی آفر ہوئی۔
کیا پی آئی اے کی نجکاری ضروری ہے؟
ماہرین کے خیال میں اس کی ایک وجہ پی آئی اے پر 200 ارب روپے سے زائد کا بوجھ بھی ہے۔
خیال رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کا آغاز سابق نگراں دورِ حکومت میں کیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں سابق نگراں وفاقی وزیر فواد احمد فواد کا کہنا تھا کہ سرکاری ایئر لائن روزانہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔
گزشتہ ایک سال میں ایئر لائن کا خسارہ 100 ارب روپے کے لگ بھگ تھا۔ جب کہ اس کے مجموعی خسارے رواں سال فروری میں 825 ارب روپے تک جا پہنچے تھے۔
اس دوران پی آئی اے کے مالی حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ اسے اپنے طیارے چلانے کے لیے ایندھن کے پیسے بھی ادا نہیں ہو پا رہے تھے اور کوئی مالیاتی ادارہ انہیں قرض فراہم کرنے یا ایندھن قرض پر دینے کو تیار نہیں تھا۔
نگراں وفاقی حکومت نے فروری میں پی آئی اے کی نجکاری کی منظوری دی تھی جس کے نتیجے میں پی آئی اے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔
اس کے تحت پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے نام سے نئی کمپنی کا قیام کو عمل میں لایا گیا تھا اور پی آئی اے کے ذمے 825 ارب روپوں کے قرضوں میں سے 650 ارب کے قرضوں کی ادائیگی اب ہولڈنگ کمپنی کے ذمے ہو گی۔
پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کے ذمے 650 ارب روپوں میں سے 268 ارب روپے کے کمرشل قرضے عوامی قرضوں میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اس طرح اب یہ قرضے واپس کرنا پی آئی اے کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری بن گئی ہے۔ بینکوں سے کیے گئے معاہدے کے تحت حکومت کو یہ قرضے اب 10 سال کی مدت میں واپس کیے جانے ہیں جن پر شرح سود 12 فی صد ہو گی۔
بینکوں کے ساتھ ہونے والی ڈیل کے تحت اگر حکومت تین سال کے اندر پی آئی اے کی نجکاری کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو کمرشل بینکوں کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اس معاہدے کو دوبارہ کھولیں اور سود کی شرح مروجہ حکومتی قرضے کی شرح کے برابر مانگیں۔
اب کیا ہو گا؟
اب تک یہ واضح نہیں کہ سرمایہ کاروں کی جانب سے توقعات سے کم دلچسپی ظاہر کرنے پر حکومت کا ردِعمل کیا ہو گا۔ تاہم اب نجکاری کمیشن اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری کو بھیجے گا جس نے اس کا تعین کرنا ہے کہ حکومت پی آئی اے کی بڈنگ دوبارہ کرتی ہے یا اسے نجی شعبے کے حوالے دینے کے بجائے خود ہی چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔