افغانستان سے متعلق دوحہ کانفرنس؛ 'پاکستان اپنے خدشات کا اظہار کر سکتا ہے'

فائل فوٹو

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے دوحہ میں اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں ہونے والی افغانستان پر عالمی کانفرنس میں شرکت پر غور کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے پوچھے جانے پر کہ آیا پاکستان اقوامِ متحدہ کی میزبانی میں 19-18 فروری کو دوحہ کانفرنس میں شرکت کرے گا؟ دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ دوحہ ڈائیلاگ میٹنگ میں شرکت پر غور کیا جا رہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی میزبانی میں قطر کے شہر دوحہ میں افغانستان کے موضوع پر ایک اہم عالمی مذاکرہ منعقد ہو رہا ہے جس میں پہلی مرتبہ طالبان کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔

بات چیت میں امریکہ، چین اور روس کے علاوہ متعدد یورپی ممالک بھی شریک ہیں جب کہ پاکستان سمیت افغانستان کے اہم ہمسایہ ممالک بھی اس گفتگو میں مدعو ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں طالبان نے تصدیق کی تھی کہ انہیں مجوزہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی ہے اور وہ اس میں با معنی شرکت پر غور کر رہے ہیں۔

ترجمان دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر روابط کو مزید مربوط اور منظم انداز میں زیرِ بحث لانے کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ پاکستان اس میں شرکت کرتا ہے تو یہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری کے ساتھ فعال شمولیت کی ہماری کوششوں کا حصہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی دنیا خصوصاً افغانستان کے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں دیرپا امن اور خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے لیے کام کرے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان طالبان سے رابطے میں رہنے کے اپنے پرانے مؤقف کو نہیں دہرا رہا ہے اور عالمی کانفرنس میں افغانستان کی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانیوں پر عمل نہ ہونے کو اٹھائے گا۔

'پاکستان اپنے تحفظات کا اظہار کرے گا'

افغان امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہونے کی حیثیت سے کانفرنس میں ضرور شرکت کرے گا اور اس عالمی فورم پر طالبان حکومت کے سامنے اپنے تحفظات رکھے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنے تحفظات کو دو طرفہ سطح پر اٹھاتا رہا ہے۔ لیکن اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔

رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی ہے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کی حکومت کے اپنائے گئے رویے سے نالاں ہے اور اسی بنا پر اسلام آباد نے اب دنیا سے طالبان کی کابل حکومت کے ساتھ بات چیت رکھنے کے اپنے مؤقف کو دہرانا چھوڑ دیا ہے۔

رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ افغان حکومت کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینا اچھا اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی طرح دیگر ممالک کے بھی افغانستان کے حوالے سے تحفظات ہوں گے جو کہ وہ اس فورم پر سامنے رکھ سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے تحفظات پر طالبان حکومت کی غیر سنجیدگی کے رویے پر بھی دنیا کو تشویش ہونی چاہیے اور ممکن ہے کہ دیگر ممالک بھی پاکستان کے ساتھ اپنی آواز شامل کریں۔

مقامی تھنک ٹینک صنوبر اسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ وہ خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھائے گا۔ لیکن وہ کارگر نہیں ہو سکا اور معاملہ اب اقوامِ متحدہ کے پاس چلا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کانفرنس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امریکہ اور مغرب کو تشویش ہو رہی ہے کہ انخلا کے بعد جو خلا پیدا ہوا تھا۔ اسے چین اور روس پر کر رہے ہیں اور ان کے خطے میں مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

قمر چیمہ نے کہا کہ عالمی کانفرنس میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے، دوحہ معاہدے پر عمل درآمد اور اس حوالے سے دوبارہ یقین دہانی لی جائے گی۔

فائل فوٹو

قطر میں اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام اس نوعیت کی ایک سال سے بھی کم عرصے میں یہ دوسری میٹنگ ہے۔ مئی 2023 میں ہونے والے اجلاس میں طالبان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

کانفرنس کے ایجنڈے کا ایک اہم موضوع اقوامِ متحدہ کے ایک ایلچی کا ممکنہ تقرر ہے جو کابل میں طالبان لیڈروں کے ساتھ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی رابطوں کو مربوط کرے گا۔

اس تقرری کو جس کی سفارش اقوامِ متحدہ کے ایک آزاد جائزے میں کی گئی ہے، امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔