ایشیا کپ: فائنل میں پاکستان اور سری لنکا میں سے کس کا پلڑا بھاری؟

پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں اتوار کو ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں مدِ مقابل ہوں گی، لیکن اس سے قبل دونوں ٹیموں کے درمیان سپر فور مرحلے کے میچ میں پاکستان کی شکست پر کرکٹ ماہرین ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کی بیٹنگ پر فائنل سے قبل سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔

جمعے کو دبئی اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ کی بظاہر تو کوئی اہمیت نہیں تھی، لیکن فائنل سے قبل ٹیم کی کمزوریوں اور طاقت کے تعین کے لیے دونوں ٹیموں کے لیے یہ ایک بہتر موقع تھا جس سے سری لنکا نے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔

پاکستانی ٹیم نے بالر نسیم شاہ اور شاداب خان کو ریسٹ دے کر لیگ اسپنر عثمان قادر اور آؤٹ فارم فاسٹ بالر حسن علی کو کھلایا، لیکن دونوں کھلاڑی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے اور سری لنکا نے پاکستان کی جانب سے دیا گیا 122 رنز کا ہدف بغیر کسی مشکل کے 18 گیندیں پہلے حاصل کر لیا۔

فائنل سے قبل پاکستان کی اوپننگ جوڑی بابر اعظم اور محمد رضوان کا آف کلر ہونا جب کہ فخر زمان کی مسلسل ناکامیاں اور مڈل آرڈر کی کمزوریاں پاکستان میں کرکٹ حلقوں میں موضوعِ بحث ہیں۔

سری لنکن کپتان ڈاسن شناکا نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا جو فیصلہ کیا اسے ان کے بالرز نے درست ثابت کرتے ہوئے پاکستان ٹیم کو 121 رنز پر آؤٹ کردیا۔

پاکستان کی جانب سے کپتان بابر اعظم نے 30، اور آل راؤنڈر محمد نواز نے 26 رنز کی تو اننگز کھیلی، لیکن باقی کھلاڑی اسکور میں اضافہ نہ کرسکے۔


سری لنکن لیگ اسپنر ونیدو ہسارنگا نے چار اوورز میں صرف 21 رنز کے عوض تین کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جب کہ پراموڈ مدوشن اور مہیش ٹھیک شانا نے دو دو وکٹیں حاصل کیں۔

جواب میں سری لنکن ٹیم نے ہدف 17 اوورز میں پانچ وکٹ کے نقصان پر حاصل کرلیا، اوپنر پتھوم نسانکا کے ناقابل شکست 55 قیمتی رنز نے سری لنکا کی پانچ وکٹ سے کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

آؤٹ آف فارم حسن علی نے تین اوورز میں 25 رنز دے کر کوئی وکٹ حاصل نہیں کی جب کہ ایونٹ میں ایک بھی چھکا نہ کھانے والے شاداب خان کے برعکس لیگ اسپنر عثمان قادر کو چار اوورز میں تین چھکے پڑے۔


پاکستان، سری لنکا، ایونٹ کے دوران کم بیک کرکے فائنل میں جگہ بنانے والی ٹیمیں

ایشیا کپ میں پاکستان اور سری لنکا کے سفر پر اگر نظر ڈالی جائے تو زیادہ مختلف نہیں، انجری سے متاثرہ دونوں ٹیموں نے ایونٹ میں پہلا میچ ہار کر ایسا کم بیک کیا کہ فائنل میں جگہ بنا لی۔

سری لنکا کو پہلے میچ میں افغانستان نے آٹھ وکٹوں سے ہرایا تھا جب کہ پاکستان کو بھارت نے پانچ وکٹوں سے زیر کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے سری لنکا نے کوئی میچ نہیں ہارا اور پاکستان کو واحد شکست سری لنکا نے دی۔

سری لنکا نے پہلے بنگلہ دیش کو دو وکٹوں سے ہرا کر ایونٹ سے باہر کیا، پھر سپرفور میں پہلے افغانستان کو چار وکٹوں سے ہرا کر گروپ میچ کا بدلہ کیا جس کے بعد بھارت کو چھ وکٹوں سے ہرا کر فائنل میں جگہ بنائی۔

فائنل سے پہلے کھیلے گئے میچ میں پاکستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دے کر سری لنکن کھلاڑیوں کو جو حوصلہ ملا ہے وہ فائنل میں ان کے کام آسکتا ہے۔


دوسری جانب پاکستان نے بھارت سے گروپ میچ میں شکست کے بعد ہانگ کانگ کو 38 رنز پر آؤٹ کیا، پھر بھارت کو سپر فور میں پانچ وکٹ سے اور افغانستان کو ایک وکٹ سے زیر کرکے فائنل میں جگہ بنائی۔

فائنل سے قبل میچ میں شکست کی وجہ ان فارم کھلاڑیوں کو آرام دینا تو ہے، لیکن مڈل آرڈر کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے پاکستان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔



مڈل آرڈر کی کارکردگی فائنل کے لیے کتنی اہم؟

ایونٹ کے آخری میچ سے قبل اگر پاکستان کے کھلاڑیوں پر نظر ڈالی جائے تو سب سے زیادہ رنز مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود پاکستانی وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان نے بنائے ہیں۔

وہ 5 میچز میں 56.5 کی اوسط سے 226 رنز کے ساتھ سب سے کامیاب پاکستانی بلے باز ہیں، ان کے سوا کسی بھی پاکستانی بلے باز نے ایونٹ میں اب تک مجموعی طور پر سو کا ہندسہ بھی عبور نہیں کیا جو پاکستانی بلے بازوں کی خراب فارم کی جانب نشان دہی کرتا ہے۔

محمد رضوان کے بعد پاکستان کی جانب سے ایونٹ میں واحد نصف سینچری اسکور کرنے والے فخر زمان اور کپتان بابر اعظم کی خراب فارم ٹیم کے لیے تشویش کا باعث ہے۔دونوں نے ابھی تک ایونٹ میں مجموعی طور پر 100 رنز بھی نہیں بنائے ہیں۔


ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں جہاں چھکوں کی بارش ہونی چاہیے، وہاں پاکستان کی جانب سے محمد رضوان اور خوشدل شاہ نے سب سے زیادہ پانچ پانچ چھکے مارے ہیں، جو مخالف ٹیم کے مقابلے میں کم ہیں۔

خوشدل شاہ کے پانچوں چھکے ہانگ کانگ کے خلاف میچ میں لگے جس کے بعد انہوں نے ایونٹ میں کوئی خاطر خواہ پرفارمنس نہیں دکھائی۔

اگر بالنگ کی بات کی جائے تو پاکستان کی کارکردگی کافی بہتر ہے، محمد نواز آٹھ وکٹوں کے ساتھ پاکستان کے کامیاب ترین بالر ہیں جب کہ شاداب خان کا سات وکٹوں کے ساتھ دوسرا نمبر ہے۔

نسیم شاہ کی چھ اور حارث رؤف کی پانچ وکٹوں کی بدولت پاکستان کو شاہین شاہ آفریدی کی کمی محسوس نہیں ہورہی، جو ایونٹ سے قبل انجری کا شکار ہوگئے تھے۔


ان کے متبادل محمد حسنین نے بھی ایونٹ میں اب تک چار کھلاڑوں کو آؤٹ تو کیا ہے لیکن ان کا اکانومی ریٹ 8.45 ہے جسے نیچے لانے کی ضرورت ہے۔

سپر فور میچ میں ناقابل شکست رہ کر میزبان سری لنکا کے حوصلے بلند

اس مرتبہ ایشیا کپ کا انعقاد ہونا تو سری لنکا میں تھا لیکن سری لنکا کی خراب معاشی صورتِ حال کے باعث اسے متحدہ عرب امارات منتقل کردیا گیا، ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنانا اور فائنل سے قبل پاکستان کو شکست دینا، سری لنکا کے کھلاڑیوں کا اس سے حوصلہ بڑھے گا۔


سری لنکن ٹیم کو ایونٹ کے آغاز میں فاسٹ بالر دشمانتھا چمیرا کا نقصان اٹھانا پڑا تھا، جنہیں ٹخنے کی انجری کا شکار ہونے کے باوجود اسکواڈ میں شامل کرلیا گیا تھا، ان کی جگہ پیسر پراموڈ مدوشن کو اسکواڈ میں جگہ ملی جنہوں نے پاکستان کے خلاف میچ میں ڈیبیو کیا۔

اگر پاکستان میں صرف ایک بلے باز نے ایونٹ میں سو سے زیادہ رنز بنائے ہیں تو سری لنکا کے پاس ایسے چار بلے باز ہیں۔پتھوم نسانکا اور کوشال مینڈس نے دو دو نصف سینچریاں اسکور کرکے ٹیم کو فائنل میں پہنچایا جب کہ بھنوکا راجاپاکسا نے بغیر ففٹی کیے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔


تمام بلے بازوں کا مجموعی اسٹرائیک ریٹ سو سے اوپر ہے جب کہ کوشال مینڈس نو چھکوں کے ساتھ دونوں ٹیموں میں سب سے زیادہ چھکے مارنے والے بلے باز ہیں۔

بھنوکا راجاپاکسا چھ اور پتھوم نسانکا اور شناکا پانچ پانچ چھکوں کے ساتھ زیادہ دور نہیں اور اگر فائنل میں ان میں سے کوئی بھی چل گیا تو پاکستانی بالرز مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔


سری لنکا کی جانب سے لیگ اسپنر ونیدو ہسارنگا اور لیفٹ آرم پیسر دلشان مدوشنکا نے ایونٹ میں اب تک چھ چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا ہے، جو پاکستان کے ٹاپ دو بالرز سے کم ہے۔

آف اسپنر ٹھیک شانا اور فاسٹ بالر چمیکا کرونارتنے کی بھرپور کوشش ہو گی کہ وہ فائنل میں زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو پویلین بھیج کر پانچ پانچ وکٹوں کی تعداد میں اضافہ کریں گے۔

ایشیا کپ، سب سے زیادہ مرتبہ ٹائٹل جیتنے والا بھارت فائنل سے باہر

ایشیا کپ کی 38 سالہ تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے کہ ایونٹ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلا جارہا ہے، اس سے قبل 2016 میں بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والا ایشیا کپ بھی 20، 20 اوورز پر مشتمل تھا۔

ایشیا کپ کا فارمیٹ اُس سال ہونے والے ورلڈ کپ کی مناسبت سے تبدیل کردیا جاتا ہے ، اگر اس سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی وجہ سے یہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلا جائے گا تو اگلے سال پچاس اوور کے ورلڈ کپ کی وجہ سے اس کا فارمیٹ ون ڈے انٹرنیشنل ہوگا۔

اب تک کھیلے گئے 14 ایشیا کپ ایونٹس میں سے 13 ایڈیشن ون ڈے فارمیٹ میں ہی کھیلے گئے، جس میں بھارت نے سات، سری لنکا نے پانچ اور پاکستان نے دو مرتبہ ٹرافی اپنے نام کی۔


پاکستان اور سری لنکا کی ٹیمیں اب تک صرف ایک بار ایشیا کپ کے فائنل میں ٹکرائی ہیں، سن 2000 میں جب ڈھاکہ میں ایساہوا تھا تو پاکستان نے سری لنکا کو 39 رنز سے شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔

بنگلہ دیش میں کھیلے جانے والے اُس ایونٹ میں 295 رنز بنانے والے پلئیر آ ف دی سیریز محمد یوسف اس وقت پاکستانی ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں، جب کہ معین خان ٹیم کی قیادت کررہےتھے۔


پاکستان نے دوسری اور اب تک آخری مرتبہ ایشیا کپ 2012 میں مصباح الحق کی قیادت میں جیتا تھا، میرپور کے مقام پر پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد میزبان بنگلہ دیش کو دو رنز سے شکست دے کر ہوم کراؤڈ کے سامنے اسے جیت سے محروم کیا تھا۔