پاکستان کی حکومت نے 'عاصمہ جہانگیر کانفرنس' کی غیر ملکی اداروں کی جانب سے مبینہ فنڈنگ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ذریعے معاملے کو متعلقہ ممالک کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41 کے تحت دفتر خارجہ غیرملکی فنڈنگ کا معاملہ اٹھائے گا۔
البتہ قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت دوطرفہ سفارتی سطح پر تو اس معاملے کو اٹھا سکتی ہے لیکن اس کے لیے کوئی قانونی فورم موجود نہیں ہے۔
ویانا کنونشن 1961 کا آرٹیکل 41، ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات پر مبنی ہے۔جس کے مطابق کوئی ملک دوسرے ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے لاہور میں انسانی حقوق کی ممتاز وکیل عاصمہ جہانگیر کی یاد میں کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس کی افتتاحی نشست سے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے خطاب کیا تھا۔
کانفرنس کی احتتامی نشست سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے لندن سے خطاب کیا تھا جس پر حکومتی وزرا کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو مطلوب شخص کو خطاب کی دعوت دینا آئین کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
'حکومتی اقدام سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہو گی'
سابق وزیر قانون بیرسٹر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ وینا کنونشن کا آرٹیکل 41 کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت سے متعلق ہے جبکہ کانفرنس کے انعقاد میں معاونت داخلی معاملات میں مداخلت تصور کیسے کی جائے گی؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کے پاس ایسا کوئی قانون یا فورم دستیاب نہیں جہاں اس معاملے کو لے کر جایا جاسکے۔
SEE ALSO: عاصمہ جہانگیر کانفرنس: فواد چوہدری کی شرکت سے معذرتانہوں نے کہا کہ غیر ملکی امداد کے معاملے کو حکومت کی جانب سے ان ملکوں کے ساتھ سفارتی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ ایک حماقت ہے اور ایسا کرنے سے ریاست پاکستان کی ساکھ خراب ہوگی۔
بیرسٹر ظفر اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں داخلی طور پر بھی کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے کی ممانعت کرتا ہو۔ البتہ ادارے کو اپنے سالانہ گوشواروں میں اس کے متعلق بتانا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'کیری لوگر بل' کے تحت زیادہ تر امریکی امداد غیر سرکاری اداروں کے ذریعے دی گئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت اگر سفارتی سطح پر احتجاج کرے گی تو یہ سیاسی معاملہ بن جائے گا اور دنیا یہ کہے گی کہ غیر سرکاری اداروں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔
ان کے بقول گزشتہ حکومت نے جب اس طرح کے معاملے پر اعتراض کیا تو انہیں بتایا گیا کہ اسے سفارتی و سیاسی سطح پر تو اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن قانونی طور پر دنیا میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو اس کو پابند کرسکے۔
'حکومت کی خواہش پر لوگوں کو نہیں بلا سکتے'
دوسری جانب کانفرنس کے منتظمین اور سپریم کورٹ بار ایسوسی نے حکومت کے الزامات کو رد کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی کے ایک جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ترقی پسند اور پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے سوا کسی بھی ایجنڈے کو آگے بڑھانے سے متعلق لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
کانفرنس کی منتظم منیزے جہانگیر کہتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے کانفرنس کی فنڈنگ کے آڈٹ کو وہ خوش آمدید کہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم سالانہ بنیادوں پر اپنا آڈٹ کرواتی ہے اور گوشوارے حکومت کو جمع کروائے جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔
ان کے بقول گزشتہ برسوں میں کانفرنس سے وفاقی وزرا خطاب کرتے رہے ہیں تو تب غیر ملکی فنڈنگ کا معاملہ کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ یہ کیا طریقہ ہے کہ اگر انہیں کوئی بات پسند نہ آئے تو اس فورم کو بند کردیا جائے۔
SEE ALSO: نواز شریف کی تقریر میں خلل پر ریاستی ادارے تنقید کی زد میں کیوں؟منیزے جہانگیر نے کہا کہ وہ سب کے لیے فورم اوپن رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم حکومت کی خواہش کے مطابق لوگوں کو بلائیں یا نہ بلائیں۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت ہر کسی کو بات کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور قانون کسی سزا یافتہ فرد کو اپنے خیالات کے اظہار سے نہیں روکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا حق ہے کہ وہ جانیں کہ ان کے سیاسی رہنما کیا خیالات رکھتے ہیں۔
منیزے جہانگیر نے کہا کہ جمہوریت حکومتی رہنماؤں کے مطابق نہیں ہوسکتی، جمہوریت آئین کے مطابق ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس سے خطاب سے کچھ دیر قبل مبینہ طور پر انٹرنیٹ کنکش منقطع ہو گیا تھا جس کے باعث نواز شریف کو بذریعہ ٹیلی فون خطاب کرنا پڑا تھا۔
اس کے علاوہ کانفرنس کے منتظمین نے نواز شریف کی تقریر کو تین مرتبہ روکنے کا الزام بھی ریاست پر عائد کیا۔
خیال رہے پاکستان کی عدالت نے نواز شریف کو مفرور قرار دے رکھا ہے جب کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا اتھارٹی (پیمرا) نے ایک مفرور شخص کی حیثیت سے انہیں ذرائع ابلاغ پر دکھانے اور اخبارات میں ان کے بیانات چھاپنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔