پاکستان کی وفاقی حکومت کے رواں ہفتے جمعرات کو جاری کردہ نئے قواعد پر صارفین کے ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ کے لیے سرگرم ماہرین ایک بار پھر جاری تنقید کرتے نظر آ رہے ہیں۔
حکومت کا اگرچہ کہنا ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے ملک میں آئین کے تحت صارفین کو آزادیٴ اظہارِ رائے حاصل ہو گی۔ تاہم ڈیجیٹل رائٹس کے ماہرین نئے قوانین کو حکومت کی سینسر شپ کے نفاذ کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں۔
ان قواعد کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان احکامات کے تحت ترتیب دیا گیا ہے جس میں عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو سوشل میڈیا کے قواعد کا دوبارہ سے جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔
اس سے قبل بنائے گئے قواعد پر انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے والی تنظیموں اور پاکستان بار کونسل کے شدید تحفظات سامنے آئے تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ سوشل میڈیا کے قواعد بظاہر آئین کے آرٹیکل 19 (آزادیٴ اظہارِ رائے) اور آرٹیکل 19-اے (جاننے کا حق) سے مطابقت نہیں رکھتے جس کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید نے حکومت کی جانب سے ان قواعد پر نظرِ ثانی کی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔
عدالتی احکامات کے بعد مختلف اسٹیک ہولڈرز سے ہونے والی بات چیت کے بعد ان قواعد کا اعلامیہ جمعرات کو جاری کیا گیا۔ البتہ اعتراضات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
نئے سوشل میڈیا قواعد پر اعتراضات کیا ہیں؟
پاکستان میں انٹرنیٹ، سینسر شپ اور پرائیویسی پر تحقیق سے منسلک تنظیم ‘بولو بھی’ کے ڈائریکٹر اُسامہ خلجی نے بتایا کہ درحقیقت یہ قواعد انسداد الیکٹرانک کرائمز ایکٹ یعنی ‘پیکا’ کے قانون کی سیکشن 37 کے تحت بنائے گئے ہیں۔
قانون کی اس سیکشن کے تحت پی ٹی اے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی ایسے مواد کو ہٹانے یا بلاک کرنے کا حکم جاری کر سکتی ہے جو دینِ اسلام کی عظمت، پاکستان کی سالمیت اور دفاع، امنِ عامہ اور اخلاقیات کے خلاف ہو یا ایسا مواد جو توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہو۔
تاہم اسامہ خلجی کے خیال میں ان قواعد کی بالکل ضرورت ہی نہیں تھی۔ کیوں کہ اس سیکشن کے تحت ریاست کو قدغنیں عائد کرنے کا حربہ مل جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسلام کی عظمت میں توہین مذہب سے متعلق قوانین کو ڈال دیا گیا ہے اور ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان قوانین کا کس طرح غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول اسی طرح پاکستان کی سالمیت اور دفاع کی بھی مبہم تعریف کی گئی ہے اور یہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملک میں قومی سلامتی کا بیانیہ مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح شائستگی اور اخلاقیات کو بھی ‘پاکستان پینل کوڈ’ کی سیکشنز سے منسلک کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان سب پر کارروائی کا اختیار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو دیا گیا۔ ان کے خیال میں بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ثالثی کے لیے اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کرنا چاہیے اس کے لیے کسی ریگولیٹری اتھارٹی کو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
اسامہ خلجی نے بتایا کہ نئے قواعد کے تحت پی ٹی اے ایسے کسی بھی متنازع مواد پر سوشل میڈیا کمپنی کو اسے ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے اور ایسا نہ کرنے پر 50 کروڑ روپے تک جرمانہ بھی عائدکر سکتی ہے اور ان کو پاکستان میں بلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔
'پی ٹی اے کو حاصل وسیع اختیارات واپس لیے جائیں'
اسامہ خلجی کے خیال میں اس کا حل پیکا کے قانون میں ترمیم کے ذریعے اس متعلق پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو دیے گئے وسیع اختیارات کو واپس لیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ پیکا قانون کی سیکشن 37 کو ختم کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں بھی آواز اٹھائی گئی تھی جو اب تک اس کمیٹی کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پیکا قانون کی دیگر دفعات میں فحش تصاویر اور ویڈیوز، کسی بھی انسان کی عزت و تکریم کے خلاف مواد، نفرت آمیز اور دہشت گردی پر مبنی تقاریر کا مواد اور دیگر کو پہلے ہی جرم تصور کیا جاتا ہے لیکن اس سیکشن کے تحت بنائے گئے قواعد میں سوشل میڈیا کمپنی کو پابند کیا جارہا ہے کہ اس متعلق مواد کسی بھی مواد کو حکومت کے کہنے پر ہٹا دیا جائے۔ ان کے خیال میں اس عمل سے سینسر شپ لاگو کی جاسکے گی۔
'پہلے اور اب لائے گئے قوانین میں کوئی خاص فرق نہیں'
ادھر دوسری جانب ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی ایک اور تنظیم 'میڈیا میٹرز فار ڈیمو کریسی' کی سینئر پروگرام مینیجر حجا کامران کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے نافذ کیے گئے قواعد اور اس سے پہلے لائے گئے قواعد میں کوئی خاص فرق ہی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سول سوسائٹی، صحافیوں اور ٹیک انڈسٹری کے تحفظات اب بھی موجود ہیں۔
حجا کامران کا کہنا ہے کہ نئے قواعد میں ایک اہم تبدیلی یہ دیکھی گئی ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر جو کہ سروس پروائیڈرز بھی ہیں، ان پر قواعد کی خلاف ورزی اور مواد نہ ہٹائے جانے پر جرمانے کی رقم 50 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر ان سوشل میڈیا کمپنیوں نے پاکستان میں اپنا دفتر نہ کھولا تو بھی ان پر مزید 50 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جاسکے گا۔ جب کہ پیکا قانون جس کے تحت یہ قواعد بنائے گئے ہیں، اس قانون میں زیادہ سے زیادہ جرمانہ پانچ کروڑ روپے ہے۔
'سوشل میڈیا قواعد میں ابہام اور پیکا قانون سے بھی متصادم ہے'
حجا کامران کے مطابق ان قواعد کی رُو سے پی ٹی اے یا وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن یا وفاقی حکومت کہیں، ان کو یہ جرمانہ عائد کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ جب کہ پیکا قانون کے تحت جرم ہونے پر یہ معاملہ عدالت میں جائے گا اور وہاں طے ہوگا کہ اس جرم کی کس قدر سزا یا جرمانہ بھرنا ہوگا۔
ان کے بقول اس طرح یہ قواعد خود پیکا قانون کی بھی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کہ ان قواعد ان میں ابہام بھی رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اس پر تنقید اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس بارے میں اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت بھی کی گئی جس میں تحریری اور زبانی طور پر بڑی واضح مشورے دیے گئے تھے لیکن انہیں نہیں معلوم کہ حکام سے اس مشاورت کا کیا بنا اور اسے کیوں ان کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
'حکومت کسی مواد پر شکایت کرے تو رازداری کے بجائے شفافیت نظر آنی چاہیے'
حجا کامران بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں کہ ان قواعد کو نافذ کرنے سے درحقیقت ریاستی اداروں کو سینسر شپ لاگو کرنے کا حربہ مل جاتا ہے۔
وہ اس کی وجہ بیان یوں کرتی ہیں کہ جب آپ کسی سوشل میڈیا کمپنی کو اپنا دفتر ملک کے اندر کھولنے پر مجبور کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں درحقیقت اس پر مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت مخالف مواد یا وہ مواد ہٹایا جائے جو حکومت سمجھتی ہے کہ یہ غیر قانونی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح جب کسی مواد کو ہٹانے کے لیے کوئی انفرادی شخص شکایات لے کر جائے گا تو قواعد کہتے ہیں کہ اس شکایت کنندہ کی رازداری کو یقینی بنایا جائے گا لیکن جب ایسی ہی شکایت حکومت کرے گی تو ایسے میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے شکایت کنندہ اور اس کی شکایت کو ظاہر کرنا ضروری ہے۔
'نئے قواعد سے صارفین کے حقوق کا تحفظ اور غیر اخلاقی مواد کی اشاعت کو روکا جاسکے گا'
دوسری جانب وفاقی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کا کہنا ہے کہ نئے سوشل میڈیا قواعد 2021 پاکستانی صارفین کو آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اظہار رائے کی مکمل آزادی دیں گے۔
ان کے مطابق یہ قواعد پاکستانی صارفین اور سوشل میڈیا اداروں کے مابین روابط میں اہم کردار ادا کریں گے جب کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو پاکستانی قوانین اور سوشل میڈیا صارفین کے حقوق کی پاسداری کو لازم بنانا پڑے گا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسی طرح آن لائن فحش اور پرتشدد مواد کی لائیو اسٹریمنگ پر پابندی لگائی جاسکے گی۔ جب کہ یہ ادارے پاکستان کے وقار و سلامتی کے خلاف مواد ہٹانے کے بھی پابند ہوں گے۔
وفاقی وزیر امین الحق نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان قواعد کی رُو سے غیر اخلاقی اور فحش مواد کی تشہیر بھی قابل گرفت جرم ہوگی۔ سوشل میڈیا ادارے اور سروس پرووائیڈرز کمیونٹی گائیڈ لائنز تشکیل دیں گے جس میں صارفین کو مواد اپ لوڈ کرنے سے متعلق آگاہی دی جائے گی اور کسی بھی شخص سے متعلق منفی مواد اپ لوڈ نہیں کیا جاسکے گا۔
ان کے مطقب دوسروں کی نجی زندگی سے متعلق مواد پر بھی پابندی ہوگی اور ملک کے ثقافتی اور اخلاقی رجحانات کے مخالف مواد شائع کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس سے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما اور اخلاقیات تباہ کرنے سے متعلق مواد کو بھی آن لائن لانے پر پابندی عائد کی جاسکے گی اور یوٹیوب، فیس بک، ٹک ٹاک، ٹوئٹر، گوگل پلس سمیت تمام سوشل میڈیا ادارے ان قواعد پر عمل درآمد کے پابند ہوں گے۔
نوٹیفیکشن کے اجراء کے بعد سوشل میڈیا اداروں پر جلد از جلد پاکستان میں دفاتر قائم کرنا لازم ہوگا جس میں سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے لیے اپنا مجاز افسر بھی مقرر کریں گی۔
ادھر حال ہی میں ٹک ٹاک سوشل میڈیا کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں امریکہ کے بعد پاکستان میں اپنے پلیٹ فارم سے اپ لوڈ کی گئی سب سے زیادہ 98 لاکھ سے زائد ویڈیوز کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کی شکایت پر ہٹائی ہیں۔