پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ نے کہا ہے کہ افغانستان سمیت خطے کے دیگر تنازعات کے پرامن حل کے برعکس کوئی اور حکمتِ عملی جنوبی ایشیا میں کسی بڑے تنازع کا باعث بن سکتی ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے جنوبی ایشیا کے امن کو درپیش خطرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں استحکام تمام فریقین خصوصاً بااثر عالمی و علاقائی قوتوں کے متوازن اور حقیقت پر مبنی رویے سے ہی ممکن ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر روایتی حریف اور مشرقی ہمسایہ ملک بھارت پر جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک توازن کو خراب کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں جارحانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے مخاصمانہ حکمتِ عملی جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کے بقول ہتھیاروں سے متعلق بھارتی سرگرمیاں بھی جنوبی ایشیا کے اسٹریٹیجک استحکام کے لیے خطرہ ہیں اور پاکستان اپنی کم سے کم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہے۔
جنرل زبیر نے بتایا کہ بھارتی فورسز متنازع علاقے کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حدبندی پر رواں سال اب تک مبینہ طور پر 1200 سے زائد مرتبہ فائر بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر چکی ہیں جب کہ 2007ء سے لے کر اب تک ایسی خلاف ورزیوں کے باعث پاکستان کے ایک ہزار سے زائد شہری اور تین سو سے زائد فوجی ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے اقدام دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی بڑے تنازع کا باعث بن سکتے ہیں، "اسی لیے میں کہوں گا کہ جنوبی ایشیا میں امن کا راستہ کشمیر سے ہو کر جاتا ہے۔"
بھارت ان الزامات کو بے بنیاد کہہ کر مسترد کرتے ہوئے پاکستان پر بھی ایسے ہی الزامات عائد کرتا ہے۔
افغانستان سے متعلق جنرل زبیر حیات کا کہنا تھا کہ وہاں چار فریقی مشاورتی گروپ کے ذریعے امن و مصالحت کا عمل شروع کیا جانا ایک امید افزا پیش رفت ہے جس کی سب کو حمایت کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں سلامتی کی خراب صورتِ حال کا اثر پاکستان پر پڑ رہا ہے اور ان کے بقول اس کا مظاہرہ ایک روز قبل پاک افغان سرحد پر دو پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت کی صورت میں بھی ہوا۔
پیر کو قبائلی علاقے باجوڑ میں مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان سے عسکریت پسندوں نے ایک سکیورٹی چوکی پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی اور اس دوران ایک افسر سمیت دو پاکستانی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
جنرل زبیر حیات نے متنبہ کیا کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے بنیادی فریقین کی شمولیت کے بغیر کوئی اور حکمتِ عملی مثبت نتائج کی حامل نہیں ہوگی۔