امریکی دارالحکومت میں آجکل یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے تحت افغانستان اور پاکستان کیلئے خصوصی نمائندے کا دفتر بنانے پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے، صدر براک اوباما کے ابتدائی دور میں اس دفتر کو دفترِ خارجہ میں ترجیحی بنیادوں پر بنایا گیا تھا اور سفیر رچرڈ ہول بروک اس کے پہلے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔
ہول بروک کی وفات کے بعد، اس دفتر کی اہمیت کم ہوتی گئی اور دو ماہ پہلے اسے دفترِ خارجہ کے جنوب اور وسط ایشیائی امور سے متعلق بیورو میں ضم کر دیا گیا تھا۔
اسے دوبارہ تشکیل دینے کے سوال پر بات کرتے ہوئے، امریکی تھنک ٹینک ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ‘ میں قائم پاکستان سینٹر کے سربراہ، ڈاکٹر مارون وائین بام نے کہا ہے کہ اس پر غور ہو رہا ہے۔ لیکن، میرے خیال میں ابھی تک اس کی پورے طور سے وضاحت نہیں کی گئی کہ اس دفتر کی ذمہ داریاں کیا ہوں گی‘‘۔
ڈاکٹر وائین بام کے بقول ’’ہاں۔ اس پر آجکل غور ہو رہا ہے۔ مجھے شک ہے کہ اگر یہ خصوصی نمائندے کے دفتر کی ذمہ داری کو منتقل کرنےکی بات ہے تو پھر یہ سلامتی کونسل کے سایے تلے مختلف صورت اختیار کرے گا۔‘‘
حال ہی میں دورہٴ پاکستان سے لوٹنے والی سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور، رابن رافیل نے کہا ہے کہ انہوں نے بھی یہ خبر سنی ہے اور وہ حال ہی میں پاکستان میں تھیں۔ وہاں بھی لوگ اس بارے میں بات کر رہے تھے۔
بقول اُن کے، ’’وائٹ ہاؤس میں افغانستان اور پاکستان کیلئے خصوصی نمائندے کا تقرر حیران کن نہیں ہے۔ وائٹ ہاؤس میں خارجہ پالیسی مرتب کرنے کی جانب جھکاؤ کے معاملے کو دیکھتے ہوئے یہ افواہ بہت گرم ہے۔‘‘
جب دونوں ماہرین سے اس دفتر کی قیادت کیلئے زیرِ غور ناموں کا پوچھا گیا، تو دونوں کا ایک ہی جیسا جواب تھا۔ ڈاکٹر مارون نے کہا ہے، ’’جو نام ہم نے سنے ہیں، جن میں سے ممکنہ انتخاب ہو سکتا ہے، وہ ہیں زلمے خلیل زاد اور لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لو۔ یہ دونوں بہت تجربہ کار اور خطے کی خوب واقفیت رکھتے ہیں۔ زلمے اعلیٰ شہرت رکھنے والے اور یہاں ایک طاقتور اور پُراثر شخصیت ہیں، جبکہ جنرل لوُ کا بھی بہت احترام ہے اور وہ اس عہدے پر پیشہ وارانہ صلاحیت لے کر جائیں گے۔‘‘
سفیر رابن رافیل نے کہا ہے کہ ’’ہم نے نام سنے ہیں۔ آپ نے بھی سنے ہیں اور میں نے بھی سنے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل ڈگلس لُو اور سفیر زلمے خلیل زاد۔ یہ دونوں ذی مرتبہ اشخاص اس کام کیلئے وسیع تر تجربہ اور اہلیت رکھتے ہیں۔‘‘
دونوں کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ نام زلمے خلیل زاد کا لیا جا رہا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ ’’سفیر زلمے کی تعیناتی پر پاکستان کو کچھ پریشانی ہو سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’جناب خلیل زاد پاکستان میں کوئی خاص اچھی شہرت نہیں رکھتے۔ اس لیے، یہ ایک پیچیدگی ہو سکتی ہے۔ یقیناً، افغانستان میں کچھ لوگ اس تعیناتی پر خوش ہونگے۔ لیکن، اگر ان کا انتخاب ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کیلئے پالیسی میں سختی کا اشارہ ملتا ہے۔‘‘
اس حوالے سے رابن رافیل نے کہا ہے کہ ’’میرے خیال میں ملٹری فنڈ اور افغانستان میں موجود مسائل کا زیادہ تر ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے کے تناظر میں پاکستانیوں کو تھوڑی سی پریشانی تو ہوگی۔ لیکن، اس میں وہ صدر ٹرمپ کے کہے ہوئے کے ہی عکاس ہیں۔ تاہم، وہ ایک سفارتکار ہیں اور ہر ایک کے ساتھ کام کرنے کی اہل ہیں۔‘‘
ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ اگر خصوصی نمائندے کا یہ دفتر امریکہ کی قومی سلامتی کے دفتر میں قائم ہوتا ہے، تو کیا اس میں لیزا کرٹس بھی شامل ہوں گی، اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس میں ان کا کیا کردار ہوگا، کیونکہ وہ قومی سلامتی کونسل میں جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق صدر ٹرمپ کی سینئر مشیر ہیں۔
سفیر رافیل کا کہنا تھا کہ جو بھی شخص اس عہدے ہر تعینات ہوگا، لیزا کرٹس اس کے ساتھ مل کر کام کریں گی۔