پاکستان ریلویز اُن سرکاری اداروں میں سے ایک ہے جنھیں ان دنوں مالی بحران اور انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ وسائل کی کمی کے باعث ادارے کو اپنے اثاثوں کی دیکھ بھال میں بھی مشکلات درپیش ہیں اور مرمت نا ہونے کی وجہ سے بیسیوں انجن قابل استعمال نہیں رہے۔ مزید برآں حالیہ ہفتوں میں ریل کے انجنوں کی عدم دستیابی کے باعث 115 مسافر ٹرینیں بھی بند کر دیں گئی ہیں جس پر مسافروں کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا ہے۔
لیکن ریلوے کے جنرل منیجر سعید اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ صرف اُن مقامات کے درمیان ٹرین سروس معطل کی گئی ہے جہاں سے مسافروں کی آمد و رفت نسبتاً کم ہے۔
’’انجن پورے نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہمیں روزانہ کی بنیادوں پر وہ ٹرینیں بند کرنی پڑ رہی ہیں جن کی آمدن نسبت کم ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مرکزی لائنز کی ٹرینیں چلتی رہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ریلوے کے پاس کُل 500 انجن ہیں لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث ان میں اکثریت کی بروقت مرمت نہ ہونے سے 100 انجن ناکارہ ہو چکے ہیں جبکہ بقیہ کو استعمال کے قابل بنانے کے لیے کثیر رقم درکار ہے۔
ریلوے کے بگڑتے ہوئے حالات کے پیش نظر حکومت نے گزشتہ سال 11 ارب روپے سے زائد مالیت کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ اعلان کردہ رقم تاحال ریلوے کو فراہم نہیں کی گئی ہے۔
جنرل منیجر سعید اختر نے رقم کی عدم ادائیگی کی وجوحات بیان کرتے ہوئے کہا ’’کمرشل بینک سے بات چیت شروع ہو گئی ہے مجھے امید ہے کہ ایک مہینے کے اندر تمام معاملات طے پا جائیں گے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اس رقم کو صرف انجنوں پر خرچ کیا جائے گا جس سے 100 انجن دوبارہ چلنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ’’ہم صرف حکومت پر انحصار نہیں کر رہے، ریلوے میں اب نجی شعبہ بھی سرمایہ کاری کر رہا جس سے مالی حالات میں بہتری کے ساتھ ساتھ کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔‘‘
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت اُن کے پاس 90 کارآمد انجن ہیں جن کی مدد سے صرف 100 ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں جبکہ اہم راستوں پر کم ازکم 220 مسافر ٹرینیں چلانے کی ضرورت ہے۔
انجنوں کی عدم دستیابی کے باعث گزشتہ دو ماہ سے کئی مال بردار ریل گاڑیاں بھی بند کر دی گئی ہیں جس سے پاکستان یلویز کو یومیہ تین کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں سالانہ 8 کروڑ افراد ریل کے ذریعے سفر کرتے ہیں اور ان میں اکثریت کا تعلق متوسط اور غریب خاندانوں سے ہوتا ہے۔ لیکن ریل گاڑیوں کی دن بدن بگڑتی صورت حال سےٹرین کا سفر کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ دس فیصد کمی ہورہی ہے اور مسافر ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے کے لیے بسوں کے مہنگے ٹکٹ خریدنے پر مجبور ہیں۔