پاکستان کی حکومت نے دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث مزید دو عسکریت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک منحرف دھڑا "جماعت الاحرار" اور لشکر جھنگوی العالمی نامی تنظیمیں ملک میں ہونے والے متعدد ہلاکت خیز حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہیں۔
دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی ادارے نیکٹا کی ویب سائیٹ پر کالعدم قرار دی جانے والی تنظیموں کی فہرست کے مطابق ان دونوں تنظیموں پر 11 نومبر کو پابندی عائد کی گئی تھی لیکن حکام کی طرف سے اس بارے میں جمعہ کو خبر منظر عام پر آئی۔
لشکر جھنگوی العالمی سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ خاص طور پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی دہشت گردی میں ملوث پائی گئی ہے جب کہ جماعت الاحرار مختلف مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت کی طرف سے اب تک 63 مختلف تنظیموں پر پابندی عائد ہے لیکن ناقدین کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ صرف تنظیم پر پابندی عائد کر دینے سے مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں۔
ماضی میں پابندی کا نشانہ بننے والی مختلف تنظیموں کے لوگ نئے نام کے ساتھ تنظیم تشکیل دے دیا کرتے تھے جس کی وجہ سے انھیں کالعدم قرار دے کر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں حکومتوں کو کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔
سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار تسنیم نورانی جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی العالمی پر پابندی کے فیصلے کو خوش آئند تو قرار دیتے ہیں لیکن وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پابندی کے موثر نفاذ کے بغیر یہ بھی صرف فہرست میں نام شامل کیے جانے کی مشق ہوگی۔
"یہ ان کی روک تھام کے لیے اچھا قدم ہے ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تاہم پاکستان میں ہمارا مسئلہ یہ کہ نفاذ اتنا موثر نہیں ہے کہ ہم قدغن لگا کر کئی مرتبہ مصلحت کی بنا پر کوئی سرگرمی جاری رکھنے دیتے ہیں اور پوری طرح سے پابندی نافذ نہیں کرتے اس طرح مسئلہ صحیح طرح سے حل نہیں ہوتا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان تنظیموں میں شامل لوگوں پر پابندی عائد کر کے "ان پر سختی کی جائے تاکہ دوسرے نام سے وہ بندے آئیں تو ان پر بھی پابندی کا اطلاق ہوگا۔"
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے ٹھوس اقدام کر رہی ہے اور اس ضمن میں قومی لائحہ عمل کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں اور منافرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائیوں میں اب تک سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کر کے مقدمات بنائے جا چکے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ 15 سالوں سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا سامنا ہے جس میں اسے شدید جانی و مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک 50 ہزار سے زائد شہری اور ہزاروں سکیورٹی اہلکار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
ملک کے مرکزی بینک کی طرف سے حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کو 2002ء سے 2016ء تک 118 ارب ڈالر کا بلواسطہ اور بلاواسطہ نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔