پاکستان نے کالعدم دہشت گرد تنظیم ’جماعت الاحرار‘ کے سربراہ، عمر خالد خراسانی کا نام اقوام متحدہ کی طرف سے عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی جنگ میں دہرے معیار سے تعبیر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی تعزیراتی کمیٹی میں پاکستان نے خراسانی، عرف عبدالولی، کا نام اس فہرست میں شامل کرنے کی تجویز دی تھی۔ لیکن، کمیٹی کے اجلاس میں اس تجویز کو منظور نہیں کیا گیا۔
جمعرات کو دفتر خارجہ میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران اس بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ گو کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اس بابت باضابطہ طور پر پاکستان کو مطلع نہیں کیا۔ لیکن، اسلام آباد آگاہ ہے کہ اس کی تجویز کو منظور نہیں کیا گیا، کیونکہ ایک رکن ملک نے اس پر اعتراض کیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ "ہمیں عبدالولی کو دہشت گرد قرار نہ دیے جانے پر افسوس ہے جو کہ ایک دہشت گرد ہے اور اس کے ہاتھوں پر سیکڑوں پاکستانیوں کا خون ہے، اگر ’جماعت الاحرار‘ کو بطور تنظیم دہشت گرد فہرست میں شامل کیا گیا ہے تو اس کے سربراہ کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تھا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اقدام انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی لڑائی میں پروان چڑھتے دہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہ کرنے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ عمر خالد خراسانی کو دہشت گرد قرار دینے پر امریکہ کی طرف سے یہ کہہ کر اعتراض کیا گیا تھا کہ پاکستان نے اس عسکریت پسند کا حدود اربع افغانستان بتایا تھا۔
لیکن، ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’چونکہ اقوام متحدہ کی کمیٹی کی کارروائی خفیہ ہوتی ہے اس لیے وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ کس ملک نے پاکستان کی تجویز پر اعتراض کیا تھا‘‘۔
’جماعت الاحرار‘ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ہی ایک منحرف دھڑا ہے اور اس نے حالیہ برسوں میں پاکستان میں ہونے والے متعدد مہلک دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 2014ء میں اپنی تشکیل کے بعد سے یہ گروپ 150 سے زائد دہشت گرد حملے کر چکا ہے جن میں اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور ان واقعات میں سیکڑوں افراد مارے گئے۔
عمر خالد خراسانی دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گرد حملے کا منصوبہ ساز بھی ہے۔