ترقیاتی منصوبوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان میں انسانی ترقی کے بارے اُمید اور مایوسی کی ملی جلی تصویر پیش کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ گذشتہ تین دہائیوں میں ملک میں انسانی ترقی کی اوسطاً شرح اگرچے 1.5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھی ہے لیکن اس کے باوجود نصف سے زیادہ آبادی کو صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور چھت سمیت کئی محرومیوں کا سامنا ہے۔
عالمی تنطیم کے عہدیداروں کے مطابق اس نصف آبادی میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو اگرچے خط غربت سے اوپر زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان انسانی ترقی کے اعتبار سے دنیا کے ایک سو انہتر ملکوں میں ایک سو پچیسویں نمبر پر ہے اور سرکاری عہدیدار اعتراف کرتے ہیں یہ مایوس کن امر ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان ایشیا اور افریقہ کے ان دس ملکوں میں شامل نہیں جہاں تیز رفتار انسانی ترقی ہو رہی ہے جب کہ پاکستان کی نسبت بہت چھوٹا ملک ہونے کے باوجود لاوس نے اس فہرست میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔
دیگر ملکوں میں اومان، الجیریا، سودی عرب، مراکش، تیونس، نیپال، انڈونیشا، چین اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں رپورٹ کے اجرا کی تقریب کے بعد اقوام متحدہ کی منتظم ہیلن کلارک نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ پاکستان کے پیچھے رہ جانے کی وجوہات میں یہاں تاریخی سیاسی عدم استحکام، سکیورٹی کے چیلنج، قدرتی آفات اور گذشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب شامل ہے۔
تاھم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بھی یقینی طور پر چوٹی کے دس ملکوں میں شامل ہو سکتا ہے بشرطیہ کہ ایسی متوازن پالیسیاں بنائی جائیں کہ شرح نمو کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔
ادارے کی طرف سے انسانی ترقی کا پیمانہ کسی ملک میں صحت اور تعلیم اور دیگر شعبوں کی ترقی سے عوام کی زندگیوں میں آنے والی مجموعی بہتری کو مد نظر رکھ کے تیار کیا جاتا ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو برسرِ اقتدار آنے کے بعد سنگین اقتصادی مسائل ورثے میں ملے جن میں بیس فیصد سے زیادہ افراط زر اور سات فیصد سے زیادہ مالی خسارہ شامل تھا جس کی وجہ سے انسانی ترقی اثر انداز ہوئی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتہائی غربت کا شکار افراد کی مشکلات سے غافل نہیں اور یہی وجہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام سے اس طبقے کے لیے ایک سوشل سیفٹی نیٹ قائم کیا گیا ہے۔ جب کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سماجی شعبے کی ترقی کے لیے سرمایہ صوبوں کو منتقل ہونے سے صورتحال مزید بہتر ہو گی۔
منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ندیم الحق نے ایک انٹرویو میں کہا کہ رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں سامنے آنے والا جائزہ تسلی بخش نہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ سرکاری سطح پر ایک ایسی حکمت عملی وضع کی جا رہی ہے جس کے تحت بنیادی اصلاحات لاتے ہوئے دستیاب وسائل کو موثر ترین انداز میں بروئے کار لائے جانے کو یقینی بنایا جائے۔