پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرنے کے لیے نئی ویزا پالیسی کی منظوری دے دی، جس میں پاکستان آنے والے شہریوں کے لیے کئی نئی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔
نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے تاجروں اور تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طالب علموں کے لیے پانچ سال تک کے ویزے کا اجرا ہو سکے گا۔
افغانستان سے پشاور آنے والے مریضوں، ان کے لواحقین اور بچوں کو طورخم سرحد پر ہی چھ ماہ کے ویزے کی فراہمی بھی نئی پالیسی میں شامل ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق ماضی کی طرح پاکستان میں افغان باشندوں کو دیے جانے والے ویزوں کی کوئی فیس نہیں ہو گی۔
پاکستان میں افغان سفارت خانہ بھی پاکستانی باشندوں سے افغانستان کے ویزا اجرا کی کوئی فیس وصول نہیں کرتا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں دونوں ملکوں کے شہریوں کو ویزا حاصل کرنے کے لیے مبینہ طور پر رشوت طلب کرنے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ ان شکایات کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے ایک خصوصی ٹاسک فورس قائم کی تھی۔
خصوصی ٹاسک فورس نے دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے ویزے کی فراہمی کو آسان بنانے کے لیے سفارشات مرتب کی ہیں۔ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے بدھ کو ان سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
وفاقی کابینہ نے افغانستان کے لیے نئی ویزا پالیسی کی منظوری ایک ایک ایسے وقت میں دی ہے جب افغانستان کی قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل کے صدر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ پاکستان کے تین روزہ دورے پر تھے۔
نئی ویزا پالیسی کے تحت پاکستان میں قیام، ویزے کی مدت میں توسیع اور نئے ویزے کے حصول کو کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکام کے مطابق ان تبدیلیوں سے افغان شہریوں بالخصوص طلبہ، تاجروں، سرمایہ کاروں اور مریضوں کو سہولت حاصل ہو گی۔
حکام کا کہنا تھا کہ طورخم سرحد پر مریضوں کو چھ ماہ تک ویزا دیا جائے گا تاکہ انہیں کابل میں پاکستانی سفارت خانے یا کسی قونصل خانے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔
نئی پالیسی کے تحت افغانستان میں پاکستان کا سفارت خانہ اور قونصل خانے ایک سال کے لیے وزٹ ویزا اور پانچ سال کے لیے بزنس ویزا جاری کر سکیں گے۔ جو پاکستان میں قابلِ توسیع ہو گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ افغان طلبہ اب صرف ایک سال کی بجائے اپنی تعلیم کے پورے عرصے کے لیے ویزا حاصل کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے افغانستان کے ساتھ معاملات کے حل اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سات ٹاسک فورسز تشکیل دیں تھیں۔ ان میں سے ایک ٹاسک فورس ویزا اجرا کے سلسلے میں حائل مشکلات دور کرنے سے متعلق تھی۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد ارباب کی سربراہی میں ٹاسک فورس کے متعدد اجلاس ہوئے، جب کہ بارڈر کراسنگ پوائنٹس کے دورے بھی کیے گئے۔
اسپیکر نے از خود متعدد اجلاسوں کی صدارت کی جس میں ویزا پالیسی میں تبدیلی کے لیے مختلف پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی کے ترجمان رضوان خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ٹاسک فورس نے تفصیلی جائرے کے بعد افغانستان کے لیے ویزا پالیسی کی سفارشات مرتب کیں۔ جو اسپیکر قومی اسمبلی کے ذریعے وفاقی کابینہ کو ارسال کی گئیں۔
کابینہ اجلاس سے منظوری کے فوراََ بعد افغانستان کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان کے خصوصی نمائندے محمد صادق خان نے ٹوئٹ میں نئی ویزا پالیسی کے اجرا کا ذکر کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
کابل سے آمدہ اطلاعات کے مطابق افغان حکومت نے بھی اسی طرز کی ویزا پالیسی مرتب کی ہے، تاہم ابھی اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔
کابل میں پاکستان کا سفارت خانہ پیر سے جب کہ سرحد سے ملحقہ شہر جلال آباد میں پاکستان کا قونصل خانہ ہفتے سے پاکستان کے لیے افغان شہریوں کو ویزوں کے اجرا دوبارہ شروع کر رہے ہیں۔
اس سال مارچ کے تیسرے ہفتے میں کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے باعث دونوں ممالک کے درمیان سرحدی گزرگاہیں اور دو طرفہ تجارت بند کر دی گئی تھی۔ جب کہ ویزوں کا اجرا اور دو طرفہ آمد و رفت کا سلسلہ بھی معطل تھا۔
محدود پیمانے پر دو طرفہ تجارت اور آمد و رفت جون کے وسط میں بحال ہوئی۔ جب کہ دو طرفہ آمد و رفت کا سلسلہ 30 ستمبر سے بحال کیا گیا ہے۔
کابل میں ایک افغان شہری شہر یار ننگیال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں نئی ویزا پالیسی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے نہ صرف افغان باشندوں کی مشکلات میں کمی آئے گی، بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر ہونے میں مدد بھی ملے گی۔
کابل ہی میں مقیم ڈاکٹر رحیم اللہ شینواری بھی کہتے ہیں کہ اس سے دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور تجارت میں استحکام آئے گا۔
افغان باشندوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے تجارتی اور کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی افغانستان کے لیے نئی ویزا پالیسی پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔