پاکستان میں صحافیوں خاص کر ذرائع ابلاغ سے وابستہ خواتین کے خلاف آن لائن نفرت انگیز مہم چلانے اور ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافے پر صحافیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے ایک حالیہ رپورٹ میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت نفرت و کردار کشی پر مبنی صحافیوں کے خلاف ایسی مہم سے لاتعلقی کا اظہار کرے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ حکومت آن لائن ہراساں کیے جانے پر کسی قسم کی نرمی کے روادار نہیں۔ حکومت کے مطابق ہراساں کیے جانے کی تشریح کے لیے صحافیوں کو حکومت کے ساتھ بیٹھ کہ قواعد و ضوابط بنانے چاہئیں۔
آر ایس ایف نے پاکستان کی حکومت پر زور دیا ہے کہ دو برطانوی میڈیا گروپس کی اردو سروسز کے صحافیوں کو انٹرنیٹ پر دھمکانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی عمل میں لائی جائے۔
تنظیم کے مطابق پاکستان میں ہزاروں انٹرنیٹ صارفین نے 'بی بی سی اردو' اور 'انڈیپینڈنٹ اردو' کے بائیکاٹ کی مہم میں حصہ لیا اور نفرت و کردار کشی پر مبنی دو ہفتے پر مشتمل مہم میں ان اداروں سے وابستہ صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں۔
پاکستان میں آن لائن ہراساں کیے جانے کے خلاف کارروائی اور الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون موجود ہے۔ تاہم صحافی حکام کی جانب سے اس قانون کی یک طرفہ استعمال کی شکایت کرتے ہیں۔
'انڈیپینڈنٹ اردو' اردو معروف برطانوی اخبار 'دی انڈیپینڈنٹ' کا اردو روپ بتایا جاتا ہے جو کہ سعودی عرب کی سرمایہ کاری سے چلایا جا رہا ہے۔ اس کے مدیر ہارون رشید کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے خلاف بائیکاٹ کی منظم مہم چلائی گئی اور ادارے سے وابستہ صحافیوں کو دھمکیاں دی گئیں جس پر انہیں خاصی تشویش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ہارون رشید کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کے کئی متعلقہ اداروں کو خطوط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس پر کوئی کارروائی ہوئی کہ نہیں۔
ہارون رشید کہتے ہیں کہ وہ نہیں جانتے کہ اس مہم کے پیچھے کون تھا۔ تاہم انہیں جس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہ عالمی صحافت کے رائج اصول ہیں۔ جنہیں ترک نہیں کیا جا سکتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ صحافی کے نقطۂ نظر سے اختلاف کا حق سب کو حاصل ہے اور اس کے تحت مکالمہ ہونا چاہیے، نہ کہ مقابلہ کیا جائے۔
دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی اردو سروس نے پاکستان کئی نجی ٹی وی چینل 'آج نیوز' پر نشر ہونے والے حالاتِ حاضرہ کے پروگرام ’سیربین‘ کی نشریات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بی بی سی اردو سروس، برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ماتحت برطانوی نشریاتی ادارہ ہے جو کہ برطانیہ کی حکومت کی مالی معاونت سے چلایا جاتا ہے۔
'بی بی سی ورلڈ سروس' کے ڈائریکٹر جیمی اینگس نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے پروگراموں میں کسی قسم کی مداخلت ان کے اور ناظرین کے درمیان اعتماد کی خلاف ورزی ہے، جس کی وہ اجازت نہیں دے سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے نیوز بلیٹن میں اکتوبر 2020 سے مداخلت ہو رہی تھی اور اس مداخلت کے باعث ان کے پاس پروگرام کو بند کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
خیال رہے کہ بی بی سی اردو سروس نے پاکستان کے نجی چینل 'آج نیوز' کے ساتھ 2014 میں ایک شراکت داری کے معاہدے کی بنیاد پر پروگرام 'سیربین' کی نشریات شروع کی تھی۔
'حکومت صحافیوں کو ہراساں کرنے کی مہم کو سنجیدہ نہیں لے رہی'
'آر ایس ایف' کے پاکستان میں نمائندے اقبال خٹک کہتے ہیں کہ حکومت صحافیوں کے خلاف آن لائن ہراساں کیے جانے کی مہم کے واقعات کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اقبال خٹک نے کہا کہ کسی صحافی یا صحافتی ادارے کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ٹرینڈ چلانا انفرادی حیثیت میں ممکن نہیں۔ کوئی منظم گروپ ہی چند گھنٹوں میں ایسا کرسکتا ہے۔
اقبال خٹک کا مزید کہنا تھا کہ اس کردار کشی کی اس مہم میں خواتین صحافیوں کو زیادہ ہدف بنایا جاتا ہے۔
آر ایس ایف کے نمائندے کے مطابق نفرت اور کردار کشی کی اس مہم میں حکومت یا ریاستی اداروں کے کردار کے حوالے سے مختلف خیالات اور سوچ رکھنے والے صحافی ہی ہدف بنتے ہیں۔ وہ صحافی جو حکومت مخالف تصور نہیں کیے جاتے، انہیں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات کا سامنا نہیں کرنا پرتا۔
وہ کہتے ہیں کہ آن لائن ہراساں کیے جانے جیسے واقعات حکومت، ریاست یا سیاسی جماعتوں کے پاس ایک مضبوط ہتھیار ہیں جس کے ذریعے وہ کسی بھی مخالف آواز کو دبا سکتے ہیں۔
اقبال خٹک کہتے ہیں کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون کے باوجود حکومت نفرت پر مبنی اس قسم کی منظم مہم کو جرم کے طور پر نہیں دیکھتی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر صحافی حکومت یا اداروں کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں تو ان کے خلاف ‘پیکا’ قانون فوراََ حرکت میں آجاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کا کہنا ہے کہ آن لائن ہراساں کیے جانے کی تشریح اور ان کے خلاف اقدامات کے طریقۂ کار کے لیے صحافیوں کو حکومت کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے۔
'جائز تنقید کو بھی ہراساں کیے جانے کے تناظر میں لیا جاتا ہے'
وزیرِ اعظم کے ڈیجیٹل میڈیا کے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ جائز تنقید کو بھی ہراساں کیے جانے کے تناظر میں لیا جاتا ہے اور صارفین کی جانب سے کسی جھوٹی خبر کے حقائق کے مطابق تصحیح کرنا ہراساں کرنا نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جائز تنقید کو ہراساں کرنے سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔ جس سے آن لائن ہراساں کیے جانے کے خلاف اقدامات کو نقصان پہنچتا ہے۔
ڈاکٹر ارسلان خالد کہتے ہیں کہ سماجی رابطوں کے نیٹ ورک پر اگر کسی صحافی سے اختلاف رائے کرنے کے حق کو صلب کر لیا جائے تو سوشل میڈیا کا مقصد ہی ختم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ صارفین کی جانب سےحکومت، سیاسی رہنماؤں یا کسی بھی اور شعبے سے منسلک اشخاص کی تنقید پر قدغن نہیں لگا سکتے۔ کیوں کہ ان کے بقول یہ سوشل میڈیا کی روح کے خلاف ہے۔
وزیرِ اعظم کے فوکل پرسن کا کہنا تھا کہ حکومت آن لائن ہراساں کرنے پر کسی قسم کی نرمی دکھانے کو تیار نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ انٹرنیٹ پر ہراساں کرنے کی واضح تشریح کی جائے تاکہ اقدامات ہو سکیں۔
انہوں نے پیش کش کی کہ اس ضمن میں قواعد و ضوابط بنانے کے لیے صحافیوں کو حکومت کے ساتھ بیٹھنا چاہیے اور اگر اس معاملے کا حل نکالنا ہے تو الزام تراشی کی بجائے بات چیت کرنا ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
چند خواتین صحافیوں کے صرف تحریک انصاف کے خلاف مشترکہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس بیان میں بے بنیاد قسم کے ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جس پر حکومت کی جانب سے طلب کرنے پر کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا اور بعد میں 150 کے قریب خواتین صحافیوں نے تمام تر جماعتوں سے متعلق شکایت کی۔
اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان کی 150 سے زائد خواتین صحافیوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر اُنہیں ہراساں کرنے کے واقعات اور نازیبا زبان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ جس سے اُنہیں اپنے صحافتی فرائض سرانجام دینے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
اس پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا تھا کہ حکومت ایسے قواعد و ضوابط پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے سوشل میڈیا ہر بدزبانی کو روکا جا سکے، گالم گلوچ کرنے والوں کی شناخت ہو سکے اور ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔