انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ورلڈ رپورٹ 2021 میں کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے سال 2020 میں میڈیا، سیاسی مخالفین اور سول سوسائٹی کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن کو مزید تیز کیا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی کو تیز کیا جا رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرنے پر انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں کے خلاف قانونی کارروائی کی۔
حکومت پر تنقید کرنے والے اخبار 'جنگ' کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو چھ ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ سیاسی مخالفین اور حکومت کے ناقدین کو حراست میں لینے کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) کی مدد حاصل کی گئی۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے ڈائریکٹر براڈ ایڈمز کا اس بارے میں کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین اور آزادیٔ اظہار پر حملوں نے ملک کو ایک خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے۔
اُن کے بقول حزبِ اختلاف کے رہنماؤں، کارکنوں اور صحافیوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
اس بارے میں انسانی حقوق پر کام کرنے والی فرزانہ باری کہتی ہیں کہ ماضی میں بھی ایسی صورتِ حال رہی ہے۔ لیکن موجودہ دور میں انسانی حقوق کے حوالے سے جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
فرزانہ باری نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت آزادیٔ اظہار رائے پر بہت سی پابندیاں ہیں۔ لیکن اس وقت جس طرح کی پابندیاں دیکھنے میں آرہی ہیں ماضی میں اس طرح کی پابندی نہیں دیکھی گئی۔
761 صفحات پر مشتمل عالمی رپورٹ 2021 میں ہیومن رائٹس واچ نے 100 سے زائد ممالک میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کا جائزہ لیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سال 2020 میں پاکستان کی احمدیہ کمیونٹی کے خلاف تشدد کی شدت بڑھ گئی ہے۔ توہینِ مذہب کے مبینہ واقعات میں کم از کم چار احمدی ہلاک ہو گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی حکومت توہینِ مذہب کے قانون کی دفعات میں ترمیم یا منسوخ کرنے میں بھی ناکام رہی جس کے سبب کئی افراد کو گرفتاریوں اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا۔
'ایچ آر سی پی' کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان ایک آئینی مذہبی ریاست ہے جہاں آج بھی انتہا پسندی ہے۔ اسی وجہ سے کوئی بھی حکومت ایسے عناصر کے خلاف اور ایسے افراد کے خلاف کارروائی سے گریز کرتی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں اظہار رائے پر پابندی کوئی نئی بات نہیں ہے اور ماضی میں بھی اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔
رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کووڈ-19 کے ساڑھے تین لاکھ سے زائد تصدیق شدہ کیسز موجود تھے جن میں سال 2020 میں سات ہزار اموات ہوئیں۔ بیماریوں سے بچنے کے جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کا خواتین کارکنوں، گھریلو ملازمتوں اور گھریلو ملازمین پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اطلاعات و نشریات شبلی فراز کہتے ہیں کہ وفاقی کابینہ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر وزارتِ قانون کو حکم دیا ہے کہ جلد سے جلد اس بارے میں قانون سازی مکمل کی جائے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان بھر میں گھریلو تشدد کی شکایات کے لیے قائم کی گئیں ہیلپ لائنز کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری تا مارچ 2020 کے دوران گھریلو تشدد کے واقعات میں 200 فی صد اضافہ ہوا ہے۔