پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں خطے سے متعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی کے اعلان کے بعد سے دیکھا جانا والا تناؤ تو فی الحال جاری ہے لیکن پاکستانی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ان تعلقات کی سمت کا تعین کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ ماہ اعلان کردہ پالیسی میں پاکستان پر زور دیا گیا تھا کہ اسے اپنے ہاں دہشت گردوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی دکھانا ہوگی اور اسی بات پر پاکستان شاکی ہوا اور اس پالیسی پر تحفظات کا اظہار بھی کیا۔
تاہم صدر ٹرمپ کی تقریر کے بعد جہاں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور دیگر عہدیداروں کی طرف سے پاکستانی راہنماؤں سے بات چیت کر کے پالسی سے متعلق صورتحال کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی وہیں اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل بھی اسلام آباد میں مختلف اعلیٰ عہدیداروں سے تواتر سے ملاقاتیں کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
پیر کو امریکی سفیر نے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین سرتاج عزیز سے ملاقات کی جس میں توانائی کے شعبے میں دوطرفہ تعاون جاری رکھنے پر بات چیت کی گئی۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ مربوط توانائی کے معاہدوں پر مکمل عملدرآمد کرے گا جب کہ سفیر ڈیوڈ ہیل نے کہا کہ امریکہ مربوط توانائی کے معاہدوں کو عملی شکل دینے میں پاکستان کی مدد کرے گا۔
انسداد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ اپنے اس قریبی اتحادی ملک کو توانائی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون فراہم کرتا آ رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی امریکی سفیر نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دہائیوں پرانے پاک امریکہ تعلقات کو کثیر الجہت مقاصد روابط کے ذریعے مزید مضبوط کیا جانا چاہیے۔
وزیراعظم نے سفیر ہیل سے گفتگو میں باہمی دلچسپی اور مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے روابط کی ضرورت پر زور دیا تھا۔