تین دسمبر 2005 کو لاہور میں جب انگلش کرکٹ ٹیم نے آخری بار پاکستان کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس ٹیم کو دوبارہ دیکھنے کے لیے پاکستانی شائقین کو 17 برس انتظار کرنا پڑے گا۔
یکم دسمبر 2022 کو یہ انتظار اس وقت اپنے اختتام کو پہنچے گا جب پاکستان اور انگلینڈ کے کپتان روایتی سفید کٹ میں اپنی اپنی ٹیموں کی قیادت کریں گے۔
سن 2005 میں انگلینڈ کے دورے سے قبل پاکستان کے شمالی علاقوں میں زلزلے کی وجہ سے تباہ کاریاں ہوئی تھیں۔ جب کہ 2022 میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے آج بھی کئی شہرو ں میں نظامِ زندگی مفلوج ہے۔
ماضی میں بھی انگلش کھلاڑیوں نے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جب کہ اس بار انگلش کپتان بین اسٹوکس نے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ پنڈی ٹیسٹ میچ سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ٹیسٹ سیریز سے حاصل ہونے والی تمام رقم پاکستان میں سیلاب زدگان کے نام کرنا چاہیں گے۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف سمیت سابق ٹیسٹ کرکٹر شاہد آفریدی نے بھی بین اسٹوکس کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ جمعرات سے شروع ہو رہا ہے۔ میچز سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ کیوں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اسی گراؤنڈ پر کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میچ کی پچ کو 'بیلو اوریج' یعنی اوسط درجے سے بھی کم تر قرار دیا تھا۔وہ میچ پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلا گیا تھا جس کے میچ ریفری سری لنکا کے رنجن مدوگالے تھے۔
رنجن مدوگالے نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ میچ کے پانچوں دن وکٹ ایک جیسی رہی اور نہ اس نے فاسٹ بالرز کی مدد کی جب کہ اسپنرز بھی اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھا سکے۔
بال اور بیٹ کے درمیان برابری کا مقابلہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس وینیو کو 'پچ اینڈ آؤٹ فیلڈ مانیٹرنگ پروسس' کے تحت ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دیا۔اگر اس سیریز میں بھی پچ تسلی بخش نہ بنائی گئی تو سیریز کے میچ ریفری زمبابوے کے اینڈی پائیکرافٹ بھی اس پر منفی رپورٹ جمع کراسکتے ہیں۔
انگلش ٹیم کی قیادت بین اسٹوکس اور کوچنگ برینڈن مکلم کررہے ہیں، جنہوں نے رواں سال نیوزی لینڈ، بھارت اور جنوبی افریقہ کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی۔ لیکن پاکستان کے خلاف نہ تو یہ سیریز انگلینڈ میں ہورہی ہے اور نہ ہی ان تینوں سیریز میں نمایاں جانی بئیراسٹو اس اسکواڈ کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ انگلینڈ کے کامیاب فاسٹ بالر بن کر سامنے آنے والے مارک وڈ بھی پہلے ٹیسٹ میچ میں سلیکشن کے لیے دستیاب نہیں ہوں گے۔ وہ بدستور اسی انجری کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ آئی سی سی ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ میچوں سے باہر ہوئے تھے۔
SEE ALSO: دورۂ پاکستان: انگلش ٹیم کے شیف ساتھ لانے کے فیصلے پر دلچسپ تبصرےٹیسٹ میچز میں مارک وڈ کی کمی شاید اس لیے محسوس نہ ہو کیوں کہ یہاں انگلینڈ کے پاس تجربہ کار جیمز اینڈرسن ہیں۔ اگرچہ وہ چھٹیوں پر جانےو الے اسٹورٹ براڈ کے بغیر پاکستان آئے ہیں لیکن ان کا تجربہ کسی بھی وقت میچ کاپانسہ پلٹنے کے لیے کافی ہے۔
امکان تو یہی ہے کہ بین اسٹوکس کی قیادت میں جو ٹیم پہلے ٹیسٹ میں اترے گی اس میں اننگز کا آغاز زیک کرالی کسی نئے اوپنر کے ساتھ کریں گے۔ کیوں کہ ان کے پارٹنر ایلکس لیز کو مسلسل خراب کارکردگی کی وجہ سے منتخب ہی نہیں کیا گیا۔
تاہم انگلینڈ کا مڈل آرڈ ر ایلی پوپ، جو روٹ اور ہیری بروک پر اسی طرح مشتمل ہوگا جیسے جنوبی افریقہ کے خلاف ستمبر میں ہونے والے آخری ٹیسٹ میں تھا۔
وکٹ کیپنگ کے فرائض بین فوکس انجام دیں گے جب کہ اولی پوپ اور بین ڈکٹ ان کے متبادل ہوں گے۔ فاسٹ بالنگ کا شعبہ جیمز اینڈرسن اور اولی رابنسن سنبھالیں گے جب کہ ان کے ساتھ دو اسپنرز کھلائے جانے کا امکان ہے، جس میں پاکستانی نژاد ریحان احمد اور جیک لیچ کا نام سرفہرست ہے۔
اگر انگلش ٹیم نے لیئم لیونگ اسٹون کو سلیکٹ کیا تو وہ بھی بطور اسپن آل راؤنڈر ٹیم کے کام آسکتے ہیں۔ انہیں پاکستان سپر لیگ کی وجہ سے پاکستانی کنڈیشنز کا بخوبی اندازہ ہے۔
پاکستان ٹیم شاہین شاہ آفریدی کے بغیر میدان میں اترے گی
پاکستان ٹیم کا سب سے بڑا چیلنج ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ سے ٹیسٹ فارمیٹ میں واپسی ہوگی کیوں کہ جولائی میں سری لنکا کے خلاف دو میچ کھیلنے کے بعد سے اب تک پاکستان نے کوئی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔ دونوں سیریز کے اسکواڈ میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں، جیسے تجربہ کار فواد عالم، یاسر شاہ اور حسن علی کو ڈراپ کردیا گیا ہے جب کہ ان کی جگہ نوجوان کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے۔
قومی ٹیم میں اننگز کا آغاز بدستور عبداللہ شفیق اور امام الحق کریں گے جب کہ اظہر علی اور کپتان بابر اعظم کے ساتھ آغا سلمان یا سعود شکیل کو مڈل آرڈر میں آزمایا جاسکتا ہے۔ ویسے تو شان مسعود بھی اسکواڈ کا حصہ ہیں لیکن ان کی شمولیت کا فیصلہ ٹیم مینجمنٹ کرے گی۔
محمد رضوان بطور وکٹ کیپر او رمڈل آرڈر بلے باز الیون کا حصہ ہوں گے جب کہ فہیم اشرف کی واپسی سے بیٹنگ کو طوالت مل سکتی ہے۔
بالنگ کے شعبے میں پاکستان کے پاس تجربے کی کمی ہوگی کیوں کہ قومی ٹیم سیریز میں اپنے ان دو بالرز کے بغیر میدان میں اترے گی جنہوں نے حالیہ عرصے میں ان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ حسن علی کو خراب فارم کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا جب کہ شاہین شاہ آفریدی انجری کی وجہ سے باہر ہیں۔
ان کی غیر موجودگی میں نسیم شاہ قومی ٹیم کے سب سے سینئر فاسٹ بالر ہوں گے جب کہ حارث رؤف یا محمد علی میں سے کوئی ان کا ساتھ دے گا۔ دونوں کھلاڑیوں نے اب تک پاکستان کے لیے ٹیسٹ نہیں کھیلا ہے اس لیے امکان تو یہی ہے کہ فہیم اشرف کو بطور تیسرا فاسٹ بالر فائنل الیون میں شامل کیا جائے گا۔
پاکستان کے پاس اسپنرز کی بھی ایک لمبی فوج ہے جس میں بائیں ہاتھ سے اسپن کرنے والے محمد نواز اور نعمان علی کے ساتھ دو لیگ اسپنرز ابرار احمد اور زاہد محمود شامل ہیں۔
میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری
انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان اب تک مجموعی طور پر 86 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں جس میں انگلینڈ کو 26 اور پاکستان کو 21 میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ باقی 39 ٹیسٹ میچ ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوگئے۔
اگر بات پاکستان کی سرزمین پر کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچز کی ہو تو 1961 سے لے کر 2005 کے درمیان پاکستان میں دونوں ٹیموں نے 24 میچز کھیلے جس میں پاکستان نے چار جب کہ انگلینڈ نے دو میں فتح حاصل کی۔
سن 2000میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کراچی میں کھیلا گیا ٹیسٹ میچ شائقین کو آج بھی یاد ہے جس میں انگلش ٹیم نے پاکستان کو ان کے ناقابل شکست گراؤنڈ پر ہرا کر سیریز اپنے نام کی تھی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ انگلینڈ نے 2005 کے بعد پاکستان سے دو ٹیسٹ سیریز متحدہ عرب امارات میں کھیلیں جس میں سے دونوں سیریز پاکستان نے جیتیں۔ ایک بار قومی ٹیم نے انگلینڈ کو وائٹ واش کیا جب کہ دوسری بار دو صفر سے انہیں شکست دی۔