|
پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم لاس اینجلس میں لگی آگ کے متاثرہ لوگوں کو نہ صرف امداد پہنچا رہی ہے بلکہ جلد ہی ہیلتھ کیمپ بھی قائم کرے گی جہاں لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
منگل کو اپنا کے نام سے موسوم پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی شمالی امریکہ کی تنظیم نے لاس اینجلس میں ایک ڈسٹری بیوشن سنٹر کے ذریعہ مزید امداد بھیجی۔
تنظیم کے عہدیدار ڈاکٹر نصرم اقبال نے بتایا کہ اپنا نے اپنے ایمرجنسی فنڈ سے پہلے ہی ہزاروں ڈالر کی امداد جاری کردی ہے جو امریکی مسلمانوں کی ریلیف تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کی امدادی ٹیموں کے ذریعہ متاثرہ شہریوں کو پہنچائی جارہی ہے ۔
ڈاکٹر اقبال اکنا کے رضاکاروں کے ساتھ
ڈاکٹر اقبال جو "اپنا سوشل ویلفیئر اینڈ ڈیزاسٹر ریلیف کمیٹی" کی چیرمین ہیں کہتے ہیں کہ تنظیم امدادی ضروریات کا جائزہ لے رہی ہے اور اگلے ہفتے ایک فنڈزاکٹھا کرنے کی تقریب منعقد کر رہی جس میں ملک بھر سے پاکستانی ڈاکٹر آفت کی صورت حال میں بھرپور طریقہ سے حصہ ڈالیں گے
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم یہ کام پاکستانی کمیونیٹی کے نمائندوں، پاکستانی امریکی شہریوں اور ڈاکٹروں کی حیثیت سے کر رہے ہیں کیونکہ اس وقت بے گھر ہونے والے لوگوں کو ہر طرح کی مدد کی ضرورت ہے۔"
ڈاکٹر اقبال اپنا کی موجودہ صدر ڈاکٹر حمیرہ قمر اور اگلے سال کے منتخب صدر بابر روف کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ تنظیم کی طرف سے متاثرہ افراد کی مالی اور صحت کے حوالے سے ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئا ریلیف اور اور رضاکارانہ خدمات کا ایک پروگرام ترتیب دیا جائے۔
"ہم پہلے ہی تقریباً 2500 افراد کو تازہ خوراک مہیا کر چکے ہیں جبکہ ہیلتھ سنٹرز کے ذریعہ تمام عمر کے افراد کو طبی خدمات فراہم کی جائیں گی۔"
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کیونکہ آگ بھڑکی ہوئی ہے حکومت صرف فرسٹ ریسپانڈرز کو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں جانے دیتی ہے جبکہ صحت اور دوسری خدمات کے لیے لوگوں کو محفوظ مقامات پر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔
جنوبی کیلی فورنیا میں آگ کا شکار ہونے والے علاقے کینتھ سے تین میل دور علاقے میں رہائش پزیر پاکستانی امریکی ایکسرسائز سائنس کے پروفیسر محمد علی کاظمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس المیہ کے دوران انہوں نے انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسر کی مدد کا جزبہ دیکھا۔
"ہمارے علاقے میں سب لوگ چاہے وہ پاکستانی امریکی تھے بھارت اور ایران سے تعلق رکھتے تھے سب اس المیے کے دوران ایک دوسری کی انسانیت کی بنیاد پر مدد کر رہے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ کیسے تمام افراد نے ایک نیٹ ورک بنایا جس کے ذریعہ محلے کے تمام رہائشیوں کو اس قدرتی آفت کے بارے میں اپ ڈیٹ کیا جاتا تھا۔
محمد کاظمی، جو نیشنل اکیڈمی آف میڈیسن سے وابستہ ہیں، نے کہا
"میں جانوروں سے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ایک دوسرے کی املاک، جانوں اور جانوروں کے حفاظت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک نے دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کی۔"
آگ میں جل جانے والے علاقے پیلیسیڈس سے صرف سات میل کے فاصلے پر رہائش پزیر پاکستانی امریکی بائیو کیمیسٹ جے سپال کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستانیوں سمیت ہر کمیونیٹی کے لوگوں میں ایک دوسرے کی مدد کا جزبہ دیکھا۔
جے سپال، جو ایک بائیوٹیک کمپنی میں چیف سائنس آفیسر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی بالکنی سے آگ کو دیکھ سکتے تھے۔
"میں یہ کبھی بھی بھول نہیں سکتا میں ان پہاڑیوں میں ہائیکنگ کے لیے اکثر جایا کرتا تھا، لیکن آگ نے سب کچھ راکھ کر دیا۔"
جے نے بتایا کہ آگ اتنی بڑی اور شدید تھی کہ سات میل کے فاصلے پر بھی سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی، کھانسی بھی ہورہی تھی اور سر درد بھی تھا۔
"میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا لمحہ ہے کہ جب سب لوگ چاہے وہ پاکستانی ہوں یہ کسی بھی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہوں وہ انسانیت کے جزبے کے تحت متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ میں نے بھی متاثرہ لوگوں کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا تھا۔"
ریاست کیلی فورنیا کے شہر لاس اینجلس میں کئی مقامات پر آگ لگی ہوئی ہےاور حکام کے مطابق 50 سے 120 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہواوں کے سبب خشک موسم میں اس کے مزید پھیلنے کا اندیشہ ہے۔
آگ میں 24 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بڑھکتی ہوئی آگے سے بچاو کے لیے اپنے گھروں سے محفوظ مقامات جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اب تک بعض اندازاً 200 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
پچھلے ہفتے سے کیلی فورنیا کے جنوب میں جاری آگ سے ہزاروں مکان خاکستر ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں امریکہ کے مہنگے ترین قصبوں میں شمار ہونے والے پیلیسیڈس کے علاوہ ہالی ووڈ ہلز بھی شامل ہیں۔
دریں اثنا، اکنا ریلیف یو ایس اے کے نام کی امریکی مسلمانوں کی فلاحی اور امدادی تنظیم نے کہا ہے کہ اس نے آگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے 250,000 ڈالر مختص کیے ہیں جو کہ تین ہزار خاندانون کو امداد دینے کے لیے استعمال ہوں گے۔