جب سیدہ کے خاوند نےگزشتہ برس اگست میں ایک رات انہیں کال نہ کی، تو وہ سمجھ گئیں کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔
ملائیشیا میں جلا وطنی گزارنے والے پاکستانی صحافی سید فواد علی شاہ اپنی اہلیہ کو باقاعدگی سے ٹیلی فون کال کرتے تھے۔ البتہ اب پانچ ماہ گزر جانے کے باوجود سیدہ اپنے خاوند کی آواز نہیں سن سکی ہیں۔
سیدہ کی پاکستانی اور ملائیشین حکام کو کی جانے والی درخواستوں پر کوئی جواب نہیں آیا۔ سیدہ کا وائس آف امریکہ کو اپنا نام صرف سیدہ لکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ذہنی تشدد ہے۔
صحافی فواد علی شاہ پاکستان کے اداروں اور افراد پر تنقید کرتے رہے ہیں، جن میں طاقت ور فوج اور اس کے ماتحت خفیہ ادارے بھی شامل ہیں۔
پاکستانی اخبار 'دی نیشن' کے لیے فرائض انجام دیتے ہوئے انہوں نے جبری گمشدگیوں کے علاوہ طالبان گروہوں اور آئی ایس آئی کے درمیان ممکنہ رابطوں سے متعلق تحقیقاتی سیریز بھی کی تھی۔
سیدہ نے آخری بار اپنے خاوند کو گزشتہ برس موسمِ بہار میں اس وقت دیکھا تھا جب وہ انہیں ملنے ملائیشیا گئی تھیں جب کہ ان کی اپنے خاوند سے آخری بار فون پر بات 22 اگست کو ہوئی تھی۔
SEE ALSO: جنرل باجوہ ٹیکس ریٹرنز لیکس؛ صحافی شاہد اسلم کی درخواست ضمانت منظور ، رہائی کا حکمسیدہ کے خاوند کے بارے میں پہلی بار اطلاع رواں برس چار جنوری کو اس وقت آئی جب ملائیشیا کے وزیر داخلہ سیف الدین اسماعیل نے ایک پریس کانفرنس کے دوران تصدیق کی کہ سید فواد علی شاہ کو کوالا لمپور میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کی درخواست پر اگست میں اسلام آباد ڈی پورٹ کر دیا گیا تھا۔
ملائیشیا کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے انہیں بتایا کہ فواد ایک پولیس افسر تھے جن کے خلاف محکمہ کارروائی کرنے والا ہے۔
سیدہ، جو کہ ایک پروفیسر ہیں اور پاکستان میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے خاوند نے کبھی بھی پولیس کے لیے کام نہیں کیا۔
تاہم، اس کے باوجود، ملائیشیا کا کہنا ہے کہ فواد کو ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ہیں کہاں؟
دوسری طرف پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سیدہ کے خاوند ملک میں موجود نہیں ہیں۔ تاہم میڈیا کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔
وائس آف امریکہ نے پاکستانی اور ملائیشین حکام اور سفارت خانوں سے اس سے متعلق رابطہ کرنے کی کوشش کی، تاہم کامیابی نہ مل سکی۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے وائس آف امریکہ کی اردو سروس کو جمعرات کو بتایا کہ حکومتوں کے درمیان مشاورت کے بعد ہی قانونی شقوں کی روشنی میں ملک بدری سے متعلق فیصلے کیے جاتے ہیں۔
SEE ALSO: پلڈاٹ کی رپورٹ: 'جمہوریت کی کمزوری کی صرف اسٹیبلشمنٹ ہی ذمے دار نہیں'ترجمان نے مذکورہ کیس سے متعلق وی او اے کے سوالات کو وزارت اطلاعات کی طرف بھیج دیا۔
وی او اے کی طرف سے وزارت اطلاعات کو سوالات تو بھیجے گئے، تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کے جوابات موصول نہیں ہوئے۔
علاوہ ازیں، پاکستانی وزارت داخلہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی طرف سے بھی مؤقف حاصل نہ ہو سکا۔
وی او اے نے ملائیشیا کی وزارت ہوم افیئرز اور امیگریشن کے علاوہ پاکستانی سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا، تاہم ان کی طرف سے بھی کوئی مؤقف موصول نہیں ہوا۔
میڈیا کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے مطابق جنوری 2011 میں آئی ایس آئی نے فواد کو اٹھایا اور ان پر کئی ماہ تشدد کیا۔
آر ایس ایف میں اس وقت ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینئل بسٹرڈ کا کہنا تھا کہ خفیہ ایجنسیاں صحافیوں کو کئی مہینوں تک اپنے پاس رکھتی ہیں تا کہ صحافی برادری کو خبردار کیا جا سکے۔
SEE ALSO: صحافی صدیق کپن کو دو سال بعد ضمانت مل گئی، عمر خالد کی بھی جیل سے عارضی رہائیفواد رہائی کے فوری بعد ملائیشیا روانہ ہو گئے تھے اور انہوں نے پناہ گزین بننے کی درخواست دے دی تھی۔
آر ایس ایف کے مطابق ملائیشیا اور پاکستان میں فاصلہ ہونے کے باوجود پاکستانی کی انٹیلی جینس ایجنسیوں نے انہیں زبردستی واپس لانے کی کوشش کی حتٰی کہ انٹر پول سے بھی متعدد بار درخواست کی گئی جو کہ رد کر دی گئی۔
ملائشیا کی نیوز ویب سائٹ 'فری ملائیشیا ٹو ڈے' کے مطابق دسمبر 2019 میں آئی ایس آئی کا اسٹیمپ کردہ خط ملائیشیا میں فواد کے گھر بھیجا گیا۔
خط میں مبینہ طور پر کہا گیا کہ ان کے پاس کوالا لمپور میں ایک ایجنسی کے پاس جا کر ایمر جنسی پاسپورٹ حاصل کرنے کا آخری موقع ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ اگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو وہ ان کی ایک خوفناک مثال بنائیں گے۔
سیدہ کی طرف سے اپنے خاوند کی اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کو 2021 میں لکھی گئی ایک ای میل کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا گیا، جس میں لکھا تھا کہ وہ ہمیشہ خوف زدہ رہتے ہیں کہ انہیں خفیہ طور پر یا ڈرامائی انداز میں اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کو مطلع کیے بغیر پاکستان ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔
مبصرین کا قیاس ہے کہ ملائیشیا کی حکومت نے فواد کو غلطی سے ڈی پورٹ کیا ہے۔ ملائیشیا کی حکومت کو فواد کو ڈی پورٹ کرنے سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہو سکتا۔
سیدہ کے لیے ملائیشیا میں وکالت کی خدمات دینے والے مورتھی پونیسامی کے مطابق اس بات کا دستاویزی ثبوت ہونا چاہیے کہ فواد کو کب ڈی پورٹ کیا گیا اور یہ کہ انہوں نے ملک کب چھوڑا۔ ان کے مطابق ایسی کوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ کوئی کچھ ضرور چھپا رہا ہے۔ اسی لیے ہم اس بات کی بنیاد تک جانا چاہتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ فواد کو غلطی سے ڈی پورٹ کیا گیا۔
ان کے خیال میں اس بات کے ذمہ دار کچھ پاکستانی اور ملائیشیا کے حکام ہیں۔
سیدہ نے دسمبر میں ملائیشیا کا دورہ کیا تھا۔ وہ اس سے قبل ملائیشیا جانا چاہتی تھیں لیکن حاملہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کے گمشدہ ہونے کی پریشانی کی وجہ سے ان کا حمل ضائع ہوگیا۔
کوالالمپور میں انہوں نے حقائق تک پہنچنے کے لیے مورتھی پونیسامی کی خدمات حاصل کیں مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔
خبر رساں ادارے ’فری ملائیشیا ٹوڈے‘ کے لیے کام کرنے والے صحافی پردیپ نمبیار کے مطابق فواد کی ڈی پورٹیشن کے بعد نومبر 2022 میں ملک میں انتخابات ہوئے اور نئی انتظامیہ نے چارج سنبھالا ہے لیکن ریاست کی جانب سے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکام کی جانب سے رویہ انہیں پریشان کر رہا ہے اور چیزیں شفاف نہیں ہیں۔
ان کے مطابق ملائیشیا جیسے ملک میں، جو آزادی اظہار کے عالمی انڈیکس میں بہت نیچے ہے اور جس نے 1951 کے مہاجرین کے کنونشن پر بھی دستخط نہیں کیے، حکام کا غیر ہمدردانہ رویہ سمجھ میں آتا ہے۔
مبصرین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فواد علی شاہ کی گمشدگی اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ پاکستان کے حکام ناقدین کو دبانے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں۔
’فریڈم ہاؤس‘ میں بین الاقوامی طور پر جبر پر کام کرنے والے یانا گوروکووسکیا کے مطابق آمرانہ حکومتوں نے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے بہت پہلے ہی سرحدوں کا احترام پس پشت ڈال دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایک پورا جہاں ہے، جہاں حکومتیں لوگوں کو نشانہ بنانے یا اس میں مدد فراہم کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتی ہیں۔
فواد علی شاہ کی گمشدگی سے پہلے ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں پاکستان چھوڑ کر جانے والے ناقدین کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا جب کہ کچھ کا قتل بھی ہوئے۔
طحہ صدیقی 2018میں اسلام آباد میں مبینہ طور پر اغوا کی کوشش سے فرار ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طریقۂ کار سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ اس واقعے کے بعد فرانس چلے گئے تھے۔
ان کے مطابق انہیں ابھی بھی دھمکی آمیز فون کالز آتی ہیں جب کہ پیغامات ملتے ہیں جب کہ ان کے مطابق فرانس میں جو بار وہ چلاتے ہیں، اس میں بھی کئی دفعہ مشکوک لوگوں کی موجودگی دیکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے انہیں چند برس قبل خبر دار کیا تھا۔
پاکستان کے پیرس میں سفارت خانے نے اس سلسلے میں وائس آف امریکہ کے سوالات کے جواب نہیں دیے۔
طحہ کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے پاکستان میں ان کے خاندان کو بھی ہراساں کیا۔ انہیں پیغام بھیجا گیا کہ طحہ سمجھتا ہے کہ وہ فرانس میں محفوظ ہے لیکن کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فواد علی شاہ کی گمشدگی کے بعد انہیں اپنے تحفظ کے بارے میں پریشانی لاحق ہے۔
لاپتا صحافی کی اہلیہ سیدہ کا کہنا ہے کہ ملائیشیا میں ان کے شوہر کے لیے تگ و دو کرنے کے بعد سے انہیں ہراسانی کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں دھمکی آمیز پیغامات ملے جن میں انہیں پاکستان واپس لوٹنے کا کہا گیا ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں اپنے ویزا کے بڑھانے کی درخواست دی جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔
ملائیشیا چھوڑنے سے چند گھنٹے پہلے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان جانا اگرچہ ان کے لیے خطرناک ہے لیکن وہ پھر بھی جا رہی ہیں۔
پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے گھر آئی ایس آئی سے تعلق بتانے والے دو افراد آئے تھے اور انہیں خاموش رہنے کی تاکید کی تھی کہ وہ اپنی زندگی کو مزید مشکل نہ بنائیں۔
ان افراد نے سیدہ کو بتایا کہ ان کے شوہر پاکستان نہیں ہیں۔