میانمار میں روہنگیا نسل کے مسلمانوں کی ہلاکت اور اُن کے مجبوراً ملک چھوڑنے کی خبریں ان دنوں پاکستان میں موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس بارے میں کوئی واضح حکمت عملی اپنائے۔
پاکستان کے وزیر برائے انسانی حقوق ممتاز احمد تارڑ نے ایک بیان میں اقوامِ متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے ’یو این ایچ سی آر‘ پر زور دیا ہے کہ وہ پسماندہ اور میانمار میں بطور اقلیت رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کی ’’نسل کشی‘‘ کو روکنے میں کردار ادا کرے۔
اُنھوں نے مسلمان ممالک کی تنظیم ’او آئی سی‘ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ بغیر تاخیر کے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرے۔
وفاقی وزیر نے روہنگیا مسلمانوں کی ہلاکتوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
ممتاز احمد تارڑ کا کہنا تھا کہ میانمار میں آباد روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بنیادی انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔
گزشتہ اختتامِ ہفتہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان میں میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل اور اس برادری کے افراد کی نقل مکانی سے متعلق سامنے آنے والی اطلاعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میانمار کی حکومت سے اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی رکن سحر کامران کا تعلق حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی سے ہے۔
اُنھوں نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئندہ ہفتے پارلیمان کے دونوں ایوان کے شروع ہونے والے اجلاسوں میں بھی متوقع طور پر اس معاملے پر غور کیا جائے گا۔
’’پاکستانی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، آواز بلند کرنی چاہیے۔ لیکن اس سے زیادہ ہمیں مسلم اتحاد کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں او آئی سی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
میانمار میں آباد لگ بھگ 10 لاکھ روہنگیا مسلمان ایک اقلیت ہیں جنہیں ایک عرصے سے نہ صرف ملک کی اکثریتی بودھ آبادی اور سکیورٹی فورسز کی طرف سے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے بلکہ حکومت بھی انھیں اپنا شہری تسلیم نہ کرتے ہوئے ان پر توجہ نہیں دیتی۔
اُدھر بدھ کو ایک بیان میں میانمار کی جمہوریت نواز رہنما اور امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں سے متعلق دنیا کے مختلف ممالک میں پائی جانے والی تشویش کی بڑی وجہ اس بارے میں اُن کے بقول سامنے آنے والے غلط معلومات ہیں۔