آئی ایم ایف سے معاہدے کے باوجود پاکستانی روپے کی قدر کم کیوں ہو رہی ہے؟

پاکستان کا روپیہ ایک دفعہ پھر سے گراوٹ کا شکار ہے اور ایک ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی قدر لگ بھگ 15 روپے کم ہوئی ہے۔

منگل کو کاروبار کے اختتام پر انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر 231 روپے 92 پیسے پر بند ہوا جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر تقریباً 238 پاکستانی روپے کے برابر ہو چکا تھا۔

عالمی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف) کی جانب سے قرض پروگرام کی بحالی کے اعلان کے بعد روپے کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم یہ رجحان زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکا۔گزشتہ چند روز سے امریکی ڈالر کی قدر میں اضافے کا تسلسل برقرار ہے۔

پاکستان کے تاجروں اور صنعت کاروں کی تنظیم ایف پی سی سی آئی نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فوری طور پر اس حقیقت کا نوٹس لینا چاہیے کہ پاکستانی روپیہ اپنی قدر میں کمی کے ایک اور دور میں داخل ہو گیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے رقوم کی آمد کے باوجود، درآمدی ادائیگیوں اور تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں ملک کو ہونے والے نقصانات کی وجہ سے روپے پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

اس کے علاؤہ روپے کی قدر میں کمی کی وجوہات میں بین الاقوامی مارکیٹ میں ڈالر کے انڈیکس میں اضافہ اور دوست ممالک کی جانب سے اعلان کردہ رقوم کا حاصل نہ ہونا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی قسط چھوٹی سی ہے اس کے ساتھ باقی عالمی اداروں اور دوست ممالک نے پاکستان کو ڈالرز دینے کے اعلان کیے تھے لیکن اس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں ان میں سیلاب کے سبب روپے پر دباؤ بھی شامل ہے اور اس وجہ سے بھی برآمدات پر مزید دباؤ آئے گا کیوں کہ پاکستان زیادہ تر اشیا باہر سے منگواتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن کے الزامات کے باعث دیگر ملکوں اور اداروں کی جانب سے سیلاب کی مد میں زیادہ فنڈز نہیں مل سکے۔

کرنسی ڈیلرز کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کی ایک اور بڑی وجہ ایران اور افغانستان کو کرنسی کی اسمگلنگ بھی ہے۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ پاک ایران اور پاک افغان سرحدوں پر لوگوں کی آمدورفت، جو پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ کا ایک راستہ ہے اس سے بھی روپے پر دباؤ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے کی ایک اور وجہ اسمگلنگ بھی ہے کیوں کہ حکومت نے مہنگی اشیا کی درآمد پر بھاری ڈیوٹی لگا رکھی ہے اس بنا پر ان اشیا کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مہنگی اشیا کی درآمدات پر ڈیوٹی کے نفاذ سے قبل اوپن مارکیٹ انٹر بینک سے نیچے چل رہی تھی لیکن اس وقت اوپن مارکیٹ انٹر بینک سے تقریباً آٹھ روپے اوپر چل رہی ہے۔

بروکریج اور انویسٹمنٹ بینکنگ فرم جے ایس گلوبل سے وابستہ ماہر معیشت فاران رضوی کہتے ہیں کہ پاکستان کو ادائیگیوں کے توازن کا بڑا مسئلہ درپیش ہے

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ سیلاب نے بہت بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے جس سے اندیشہ ہے کہ غذائی قیمتوں میں 15 فی صد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔

پاکستانی تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کے لیے عالمی برادری کی جانب سے ردعمل سست ہے اور ملک کو ابھی تک کوئی خاطر خواہ نقد امداد موصول نہیں ہوئی۔


اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے گزشتہ ہفتے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی امداد کی اپیل کی ہے جس کے نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

فاران رضوی نے کہا کہ بنیادی غذائی اشیا مہنگی ہوں گی تو شرح سود پر بھی فرق پڑھے گا۔

فاران رضوی نے کہا کہ آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر تو مل گئے ہیں لیکن جو ادائیگیاں کرنی ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے نے بھی بیرونی ادائیگیوں کو بڑھا دیا ہے۔

ظفر پراچہ کے بقول مارکیٹ بالکل خشک ہے اور ڈالر نہیں آ رہا ہے اور آئی ایم ایف سے قرض بحالی کے پروگرام کے بعد ایشائی ترقیاتی بینک سعودی عرب اور امارات سے پاکستان کو ڈالر حاصل نہیں ہوئے ہیں اس بنا پر جو مارکیٹ میں بہتری کی فضا کی توقعات تھیں وہ پوری نہیں ہو سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتِ حال میں سیاسی افرا تفری بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہے اور حکومت کا کہیں کوئی کنٹرول دکھایئ نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی معاملات پر گرفت نہ ہونے کے سبب پچھلے دنوں بینکوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور ڈالر کو کم میں خرید کر مہنگا بیچتے رہے جس پر ان کے خلاف اظہار وجوہ کے نوٹس سے زیادہ کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کہ جانب سے درآمدات پر عائد پابندی ہٹانا اچھا اقدام ہے کیوں کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس وجہ سے بھی درست ہے کہ کیوں کہ جس ملک کو ہم برآمد کرتے ہیں اسے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ سے درآمد نہیں کریں گے۔

ظفر پراچہ نے کہا اسٹیٹ بینک کی جانب سے روپے کی قدر میں استحکام کے لیےکچھ اقدامات دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومت ان کے ساتھ ہم آہنگ نظر نہیں آتی جس سے لگتا ہے کہ شاید حکومت خود کو اس عمل سے دور رکھنا چاہتی ہے۔

ان کے بقول ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا رجحان آئندہ ہفتوں میں بھی جاری رہے گا۔

فاران رضوی بھی کہتے ہیں کہ سیاسی بے یقینی کی صورتِ حال بھی ہے اور ان وجوہات کی وجہ سے روپے میں استحکام نہیں آ پا رہا جو کہ اس قسم کی صورت میں ہوتا ہے۔

ان کے مطابق آئندہ ہفتوں میں ڈالر کی قیمت 240 روپے کے قریب ہی رہے گی اور بیرونی امداد یا دوست ممالک سے معاونت کی صورت اس کی قیمت میں کمی آسکتی ہے۔