اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جون میں ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام پر 1.9 ارب ڈالرز رہا۔ جو جی ڈی پی یعنی مجموعی قومی پیداوار کے 0.6 فی صد کے برابر ہے۔
کرنٹ اکاؤںٹ خسارے کو انتہائی سادہ الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان میں ایک سال کے دوران آنے والے امریکی ڈالر خرچ ہونے والے ڈالروں سے زیادہ ہوں تو کرنٹ اکاؤنٹ مثبت ہو گا اور اگر ایک سال میں ڈالر خرچ زیادہ ہوئے ہوں اور آئے کم ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ دنوں یہ خسارہ پچھلے دس سال میں کم ترین سطح پر ریکارڈ کیا گیا۔ اس سے قبل سال 2020 کے اختتام پر یہ خسارہ 4.45 ارب امریکی ڈالر تھا۔
یاد رہے کہ سال 2018 کے اختتام پر یہ خسارہ 19 ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھا۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کی بنیادی وجہ تلاش کی جائے تو 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال 2021 میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر میں 27 فی صد اضافہ دیکھا گیا اور مجموعی طور پر ملک میں ریکارڈ 29.3 ارب ڈالرز بھیجے گئے۔
اسی طرح ملکی برآمدات میں بھی 14 فی صد کا بڑا اضافہ ہوا جس کے بعد ملکی برآمدات بڑھ کر 25.6 ارب ڈالر تک جاپہنچیں۔
اس کے باوجود امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں ایک بار پھر بڑی کمی دیکھی جارہی ہے۔
امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں پیر کو انٹربینک ٹریڈنگ کے دوران تقریباً ایک فی صد کی کمی دیکھنے میں آئی اور ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 161 روپے 48 پیسے کی سطح پر آگئی۔
فاریکس ڈیلرز کے مطابق ڈالر کی گزشتہ سات ماہ میں یہ ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت تھی۔
’حکومت روپے کی قدر خود کم کررہی ہے‘
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں بیرونِ ملک سے اشیا کی درآمد یا مختلف ادائیگیوں کے لیے ڈالر کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے مارکیٹ سے زیادہ ڈالر خریدنے سے روپے کی قدر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
لیکن فاریکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زیادہ رقوم ملک بھیج رہے ہیں اور زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی بلند سطح پر ہیں۔ اس کے علاوہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ کافی کم ہوا ہے اور اسٹاک مارکیٹ بھی نسبتا بہتر جارہی ہے جبکہ بڑے پیمانے پر اشیاء سازی یعنی لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے تو اس صورتِ حال میں توقع کی جارہی تھی کہ ڈالر کی قیمت 155 روپے سے اوپر نہیں جائے گی۔
ان کے مطابق ڈالر کی موجودہ اڑان سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اس بارے میں کوئی بین الاقوامی وعدہ کررکھا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ظفر پراچہ کے نزدیک عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض لیتے وقت حکومت نے دیگر وعدوں کے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ روپے کی قدر کم کی جائے گی۔
ان کے بقول روپے کی قدر میں کمی کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ دکھائی نہیں دیتی۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیٹ بینک کے بعض اقدامات کی وجہ سے لوگ اب بینکنگ چینل کے ذریعے پیسے بھیجتے ہیں۔ کرونا وبا کے اثرات ہماری معیشت پر خوش قسمتی سے کم دکھائی دیے۔ لیکن حکومت نے آئی ایم ایف سے ڈیل شاید بہتر نہیں کی جس کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں اب روپے کی قدر کو کم کرنا پڑرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید کم ہورہی ہے۔ روپیہ کمزور ہونے سے مہنگائی مزید بڑھے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنی غلط حکمت عملی سے اسٹیٹ بینک کی بہتر کارکردگی پر پانی پھیر رہی ہے۔
'آئی ایم ایف اور حکومتی معاہدے کے تحت ڈالر کو فری فلوٹ پر رکھا گیا ہے'
معیشت کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے والے ادارے اسپیکٹرم سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ اور اقتصادی ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومتی معاہدے کے تحت ڈالر کو مارکیٹ ریٹ یعنی فری فلوٹ پر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اب اس کی طلب اور رسد میں اضافے اور کمی سے اس کی قیمت کا تعین ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب ملک میں ترسیلات زر، غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اور برآمدات میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے تو وہیں گزشتہ مالی سال کے آخری مہینے یعنی صرف جون میں 6.3 ارب ڈالر کی درآمدات بھی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آخری ماہ میں 1.6 ارب ڈالرز کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا رہا جو دسمبر 2018 کے بعد ایک ماہ کے دوران سب سے زیادہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔
عبدالعظیم نے مزید بتایا کہ اسی طرح درآمدی بل پر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا بھی اثر پڑا جس کی وجہ سے 14کروڑ ڈالرز سے زائد کی رقم خرچ ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے کرونا ویکسین کی خریداری کے لیے بھی 13کروڑ ڈالر مختص کئے تھے جس میں سے رقم خرچ کی گئی۔
ان کے مطابق اس میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ 6.3 ارب ڈالرز میں سے 1 ارب 28 کروڑ ڈالرز کی مشینری درآمد کی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں نئی سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔
اقتصادی ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈالروں کی آمد بڑھنے کے امکانات تو موجود ہیں لیکن ان امکانات کو روشن کرنے کے لیے پاکستان کو برآمدات بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو درآمدات میں کمی کے لیے بھی اقدامات کرنا پڑیں گے۔