امریکہ میں 22 ملکوں کے مقابلے میں  پاکستانی طالبعلم کی اول پوزیشن

پاکستان کے طالبعلم سودیس شاہد کوپر نیکس ایوارڈ کے ساتھ کوپر نیکس کی منتظم مرینا برونزیری کے ساتھ ۔

"بیٹا میرے لئے تمہارا بہترین گفٹ وہ ہوگا جو تم اپنی محنت سے حاصل کر کے مجھے دو گے اور وہ ہے کلاس میں تمہاری اول پوزیشن۔" یہ تھا وہ جملہ جو میرے والد نے اس وقت کہا تھا جب میں کلاس ٹو میں تھا۔"

یہ کہانی ہے ناسا اور رائس یونیورسٹی ہیوسٹن کے زیر اہتمام ، 2024 کے بین الاقوامی مقابلے،“ گلوبل کوپرنیکس اولمپیاڈ “ میں امریکہ سمیت دنیا بھر سے 22 ملکوں کے 500 سے زیادہ طالبعلموں میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے سولہ سالہ پاکستانی طالبعلم سودیس شاہد کی۔

وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کےدوران سودیس نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ یہ میرے والد کے اس جملے کا اثر تھا یا میرے دل میں اپنے والد کو گفٹ پیش کرنے کی شدید خواہش اور اس خواہش کو پورا کرنے سے حاصل ہونے والی خوشی کہ اس کے بعد سے میں صرف تعلیمی میدان ہی میں نہیں بلکہ غیر نصابی سر گرمیوں میں بھی انعامات لے کر ہر سال بلکہ سال میں کئی کئی بار اپنے والد کو ان کا یہ پسندیدہ گفٹ پیش کر رہاہوں۔

ایچی سن کالج لاہور کے اے لیول کے طالبعلم سودیس شاہد نے بتایا کہ انہوں نے اولمپیاڈ کی سب سے مشکل کیٹگری 5 میں حصہ لیا اور اس میں اول پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل جیتا جب کہ انہیں پورے اولمپیاڈ کا ایک حتمی فاتح بھی قرار دیا گیا جس پر انہیں ایک لیپ ٹاپ انعام میں دیا گیا۔

ہیوسٹن میں منعقدہ پانچویں گلوبل کوپرنیکس اولمپیاڈ فائنل مقابلے میں اول آنے والے پاکستانی طالبعلم سودیس شاہد ایوارڈ سرتیفکیٹ اور لیپ ٹاپ کے انعام کے ساتھ۔

کوپرنیکس اولمپیاڈ ہے کیا ؟

کوپرنیکس اولمپیاڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سودیس شاہد نے کہا کہ یہ مقابلہ ہیوسٹن میں قائم ایک ادارے، کوپرنیکس نے 2020 میں شروع کیا تھا جس کے لیے اسے ناسا اور رائس یونیورسٹی کا تعاون حاصل ہے ۔ اس کا نام پولینڈ کے مشہور ریاضی دان،ماہر طبیعات اور ماہر فلکیات، نکولس کوپر نیکس کے نام پر رکھا گیا ہے۔ جنہوں نے اس وقت،جب زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے، یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے بلکہ وہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے ۔

سودیس شاہد نے بتایا کہ اس وقت کوپر نیکس اولمپیاڈ، نیچرل سائنسز، فلم فیسٹیول، انٹرپرینیورشپ ،اور ریاضی کےشعبوں میں مقابلوں کا انعقاد کرتا ہے ۔ ان میں دنیا بھر کے کسی بھی ملک کے گریڈ 3 سے گریڈ 12 تک کے طالبعلم حصہ لے سکتےہیں ۔

اس سال کا یہ پانچواں گلوبل مقابلہ تھا جو 9 جنوری سے 13 جنوری 2024 تک جاری رہا ۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال کا مقابلہ دو کٹیگریز پر مشتمل تھا. پہلی کیٹیگری فزکس اور اسٹرانومی اور دوسری نیچرل سائنسز پر مشتمل تھی ۔۔ جن میں فزکس ، کیمسٹری ، بیالوجی ، ارتھ سائنسز، اسڑونومی،مائیکولوجی، ٹیکسونومی اور ایناٹمی شامل تھے ۔

کوپرنیکس اولمپیڈ 2024 کا ایک پوسٹر، فوٹو بشکریہ سودیس فیملی

کوپرنیکس مقابلے میں حصہ لینے کا طریقہ

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس مقابلے میں حصہ لینے کا طریقہ کیا ہے تو سودیس نے بتایا کہ کوپرنیکس اولمپیاڈ کے سالانہ مقابلوں کی تاریخ کا اعلان ادارے کی ویب سائٹ پر ہوتا ہے اور اس میں دنیا بھر کے ملکوں سے تعلق رکھنے والا تھرڈ گریڈ سے 12 گریڈ تک کا کوئی بھی طالبعلم انفرادی طور پر یا اپنے تعلیمی ادارے کے توسط سے حصہ لینے کے لیےآن لائن رجسٹریشن کرا سکتا ہے اور آن لائن ٹیسٹ میں پاس ہونے کے بعد گلوبل مقابلے میں حصہ لے سکتا ہے۔

مقابلے کی تیاری

وی او اے کے اس سوال پر کہ امریکہ سمیت دنیا بھر کے ملکوں کے 500 سے زیادہ طالبعلموں میں اول پوزیشن حاصل کرنے سے پہلے کیا انہوں نے اس کی کوئی خاص تیاری کی تھی یا اس کی تیاری کے لیے ادارہ کوئی گائیڈ لائنز فراہم کرتا ہے تو سودیس نے بتایا کہ ادارہ کوئی خاص مواد فراہم نہیں کرتا صرف وہ مخصوص شعبے بتاتا ہے جن کے بارے میں سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کیوں کہ میں سارا سال ہی اپنی تعلیم کے دوران ہر امتحان میں پوزیشن حاصل کرنے کے لیے ریاضی اور سائنس کے تمام دوسرے مضامین کی بھر پور تیاری کرتا ہوں تو وہ ہی تیاری مجھے دوسرے ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلوں کی تیاری میں کام آتی ہے ۔

انہوں نےبتایا کہ اس سے قبل وہ انٹر نیشنل جرمن اولمپیاڈ کے قومی مقابلے میں پہلے نمبر پر رہے تھے جس کے بعد جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں منعقدہ انٹر نیشنل مقابلے میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

ہیوسٹن میں منعقدہ پانچویں گلوبل کوپرنیکس اولمپیڈ مقابلے میں اول آنے والے پاکستانی طالبعلم سودیس شاہد سٹیفرڈ سنٹر کے باہر جہاں تقسیم ایوارڈ کی تقریب ہوئی اس بورڈ کے ساتھ کھڑے ہیں جس پر مقابلے کے تمام شرکا کے نام تحریر ہیں۔

انہوں نےجنوب مشرقی ایشیا کے میتھس اولمپیاڈ میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا، امیریکن میتھس اولمپیاڈ، اے ایم او، میں دو بار گولڈ میڈل جیتا ، انٹر نیشنل یوتھ میتھ چیلنج میں دو بار کانسی کا تمغہ حاصل کیا جب کہ وہ رائل کوئینز کامن ویلتھ کی طرف سےمنعقدہ مضمون نویسی کے مقابلے میں چاندی کا تمغہ جیت چکے ہیں

انہوں نے بتایاکہ وہ لاہور کی یونیورسٹی لمز اور کراچی گرامر اسکول جیسے اداروں کی طرف سے منعقدہ سائنس ،ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ اینڈ میتھس ( STEM ) کے انٹر اسکول اسٹیم اولمپیاڈز میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں ، ایچ آر سی اے کے سائنس مقابلے میں بھی گولڈ میڈلسٹ رہے ہیں۔جب کہ وہ پاکستان کیمسٹری ٹورنا منٹ 2023 بھی جیت چکے ہیں جس کے بعد اس سال وہ انٹر نیشنل کیمسٹری ٹورنا منٹ میں پاکستان کی کیمسٹری ٹیم کے کیپٹن کے طور پر شرکت کر چکے ہیں۔

سودیس شاہد ایچی سن کالج لاہور میں ایک مقابلے کے دوران۔

کوپرنیکس اولمپیاڈ کے دوران ناسا کے دورے

اس سوال پر کہ اس مقابلے کے دوران انہیں سب سے زیادہ کیا چیز اچھی لگی جسے وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے تو انہو ں نے کہا کہ مقابلے کے دوران انہیں ناسا اسپیس سنٹر اور نیشنل سائنس میوزیم کے دورےبھی کرائے گئے اور انہیں ناسا کے دفاتر میں اس کے جاری مشن آرٹیمس کو دیکھنے اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ ناسا کس طرح کام کرتا ہے اور ہماری کائنات کس طرح چلتی ہے ۔ یہ یقینی طور پر ان کے لیے یاد گار مواقع تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ان دوروں سے دنیا بھر سے شریک طالبعلموں نے بہت کچھ سیکھا۔

سودیس شاہد مقابلے کے دوران ، ناسا کےایک دورے پر

تین بہنوں کے اکلوتے بھائی سودیس شاہد نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے والدین ،تین بہنوں کی دعاؤں اور میری محنت کا ثمر ہے اور اس ایوارڈ کے ذریعے مجھے اپنے لیے، اپنے تعلیمی ادارے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے ملک پاکستان کے لیے بھی ایک اعزاز لانے کا موقع ملا ہے ۔

اپنی کامیابیوں میں اپنی والدہ کے عمل دخل پر بات کرتے ہوئے سودیس نے کہا کہ آپ کو شاید یہ بات عجیب لگے لیکن سچ یہ ہے کہ آج بھی جب میں کالج کا اسٹوڈنٹ ہوں، اور اپنی تعلیم یا مقابلوں کی تیاری کےلیےراتوں کو دیر تک جاگتا ہوں تو میری امی آج بھی میرے ساتھ اس وقت تک بیٹھی رہتی ہیں جب تک میں جاگ کر پڑھتا رہتا ہوں۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ پرائمری کلاسز میں ہوم ورک اور امتحان کی تیاری کراتے ہوئے میرے ساتھ جاگا کرتی تھیں۔

سودیس شاہد میڈیکل ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے ملک کے تعلیمی اداروں میں بھی امریکی تعلیمی اداروں کی طرح کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح کرونا کے دوران پاکستان میں گھروں سے انٹر نیٹ کو تعلیم کے لیے استعمال کروایا گیا تھا اسی طرح تعلیمی اداروں میں واپسی کے بعد بھی کلاسز کے دوران اس سسٹم کو جاری رکھا جانا چاہیے بالکل اسی طرح جیسے امریکہ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے۔